(21) وَقَالَ الَّذِی اشْتَرَاهُ مِنْ مِصْرَ لِامْرَأَتِهِ أَکْرِمِی مَثْوَاهُ عَسَی أَنْ یَنفَعَنَا أَوْ نَتَّخِذَهُ وَلَدًا وَکَذَلِکَ مَکَّنَّا لِیُوسُفَ فِی الْأَرْضِ وَلِنُعَلِّمَهُ مِنْ تَأْوِیلِ الْأَحَادِیثِ وَاﷲُ غَالِبٌ عَلَی أَمْرِهِ وَلَکِنَّ أَکْثَرَ النَّاسِ لاَیَعْلَمُونَ
''اور مصر کے لوگوں میں سے جس نے ان کو خریدا تھا اس نے اپنی بیوی سے کہا : اس کو عزت و آبرو سے رکھو (غلام نہ سمجھو) عجب نہیں یہ ہمیں کچھ نفع پہنچائے یا (شاید) اسکو اپنا بیٹا ہی بنالیں ۔اور یوں ہم نے یوسف کو اس سرزمین میں (جگہ دے کر)قابض بنایا اور غرض یہ تھی کہ ہم اسے خواب کی باتوں کی تعبیر سکھائیں اورخدا تو اپنے کام پر ہر طرح سے غالب و قادر ہے مگر بہتیرے لوگ اسے نہیں جانتے ہیں''۔
اگر انسان کا خریدار عزیز ہو تو تلخ حوادث میں بھی انجام اچھا ہوتا ہے لہٰذااگر ہم خود کو واقعی عزیز (یعنی خدائے متعال) کے ہاتھوں بیچ ڈالیں تو آخرت میں خسارت و حسرت میں گرفتار نہ ہوں گے ۔