7%

نکات:

اآیت کے اس جملہ''إِنَّهُ رَبِّی أَحْسَنَ مَثْوَایَ'' کی تفسیر میں دو احتمال پائے جاتے ہیں:

1۔خداوندمتعال میرا پروردگار ہے جس نے مجھے عزت دی ہے اور میں نے اسی کی طرف پناہ لی ہے ۔

2۔عزیز مصر میرا مالک ہے اور میں نے اس کے دسترخوان پر زندگی گزاری ہے ، اس نے تم سے میرے بارے میں ''اکرمی مثواہ '' کہا ہے لہٰذا میں اس سے خیانت نہیں کرسکتا ۔

یہ دونوں احتمال اپنے لئے دلائل رکھتے ہیں اور شواہد کی بنیاد پر استناد بھی کیا جاتا ہے ۔لیکن ہماری نظر میں پہلا احتمال بہتر ہے کیونکہ حضرت یوسف (ع)نے تقوی الٰہی کی بنیاد پر خود کو گناہ سے آلودہ نہ کیا ۔ نہ یہ کہ اس بنیاد پر پرہیز کیا کہ چونکہ میں عزیز مصر کے گھر میں رہتا ہوں اور اس کے مجھ پر حق ہیں لہٰذا اس کی بیوی کے ساتھ برا قصد نہیں کروں گا ۔ کیونکہ یہ کام تقوی سے کم تر ہے۔

یقینا اس سورہ میں چند جگہوں پر کلمہ(ربّک) سے مراد ''عزیز مصر''ہے لیکن کلمہ''ربیّ'' جو استعمال ہوا ہے اس سے مراد خداوندمتعال ہے۔ دوسری طرف جناب یوسف (ع)کی شان سے بعید ہے کہ وہ خود کو اتنا حقیر بنالیں کہ عزیز مصر کو''ربیّ'' کہنے لگیں۔