(26) قَالَ هِیَ رَاوَدَتْنِی عَنْ نَفْسِی وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ أَهْلِهَا إِنْ کَانَ قَمِیصُهُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنْ الْکَاذِبِینَ
''یوسف نے کہا : اس نے خود مجھ سے (میری خواہش کے برخلاف)میری آرزو کی تھی اور زلیخا ہی کے کنبہ والوں میں سے ایک گواہی دینے والے نے گواہی دی کہ اگر ان کا کرتا آگے سے پھٹا ہوا ہے تو یہ سچی ہے اور وہ جھوٹے (کیونکہ ایسی صورت میں یوسف اور عزیز مصر کی بیوی آگے سے ایک دوسرے سے درگیر ہوتے اور کرتا آگے سے پھٹتا)''
بعض روایتوں میں آیا ہے کہ وہ گواہ ایک بچہ تھا جس نے جناب عیسی ٰ علیہ السلام کی طرح گہوارے میں گواہی دی لیکن چونکہ اس کی سند محکم نہیں ہے لہٰذا اس پر اعتبار نہیں کرسکتے ہیں، بہتر یہی ہے کہ عزیز مصر کے مشاوروں میں سے ایک مشورہ دینے والے کو مانیں جو اس کی زوجہ کے خاندان سے تھا اور ذہین و ہوشمند تھا اور وہ عزیز مصر ہی کی طرح واقعہ کا گواہ ہو گیا۔ کیونکہ اگر وہ ماجرے کا عینی گواہ ہوتا تو جملہ شرطیہ کے ساتھ واقعہ کی گواہی دینا بے معنی ہو جائے گا(ان کان...) (1) (اگرایسا...)
--------------
( 1 )مقدسات پر تہمت لگانے کا مسئلہ قرآن مجید میں بہت جگہوں پر موجود ہے مثلاًحضرت مریم پر زنا کی تہمت لگائی گئی لیکن خداوند نے نجات دی ۔ پیغمبر اسلام کی بیوی پر بھی تہمت لگائی گئی اور یہاں جناب یوسف (ع)کی طرف بدکاری کی نسبت دی گئی۔