1۔ حکومتی افراد اور ان کے خاندان کی خبریں جنگل کی آگ کی طرح پھیل جاتی ہیں ۔(قَالَ نِسْوَ امْرَ الْعَزِیز)
2۔ جب خدا چاہتا ہے تو دروازہ بند کرنے کے بعد بھی رسوائی کا داغ دامن کردار پر لگ ہی جاتا ہے ۔(قَالَ نِسْوَ امْرَ الْعَزِیزِ تُرَاوِدُ...)
(31) فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَکْرِهِنَّ أَرْسَلَتْ إِلَیْهِنَّ وَأَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّکَأً وَآتَتْ کُلَّ وَاحِدَ مِّنْهُنَّ سِکِّینًا وَقَالَتِ اخْرُجْ عَلَیْهِنَّ فَلَمَّا رَأَیْنَهُ أَکْبَرْنَهُ وَقَطَّعْنَ أَیْدِیَهُنَّ وَقُلْنَ حَاشَ لِلَّهِ مَا هَذَا بَشَرًا إِنْ هَذَا إِلاَّ مَلَکٌ کَرِیمٌ
''تو جب زلیخا نے ان کے طعنے (اور بد گوئی) سنے تو اس نے عورتوں کو بلا بھیجا اور ان کےلئے ایک تکیہ گاہ آمادہ کی اور ان میں سے ہر ایک کے ہاتھ میں ایک چھری دے دی (تاکہ پھل وغیرہ کاٹ سکیں)اور یوسف سے کہا : اب ان کے سامنے سے نکل تو ج ، پس جب عورتوں نے انہیں دیکھا تو انہیں بڑا حسین پایا اور وہ سب کی سب (بیخودی ) میں اپنے ہاتھ کاٹ بیٹھیں اور کہنے لگیں پاک ہے اللہ ،یہ آدمی نہیں ہے یہ تو (ہو نہ ہو بس)ایک معزز فرشتہ ہے ''۔
کلمہ'' حاشا'' اور''تحاشی'' کنارے اور الگ تھلگ رہنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ،پرانے زمانے میں یہ رسم تھی کہ لوگ کسی کو بے عیب بتانا چاہتے تھے تو سب سے پہلے خداوندعالم کے بے عیب ہونے کو بیان کرتے پھر اس شخص کی بے عیبی کو بیان کرتے تھے۔(1)
--------------
( 1 )تفسیر المیزان.