7%

آیت 32:

(32) قَالَتْ فَذَلِکُنَّ الَّذِی لُمْتُنَّنِی فِیهِ وَلَقَدْ رَاوَدتُّهُ عَنْ نَفْسِهِ فَاسْتَعْصَمَ وَلَئِنْ لَمْ یَفْعَلْ مَا آمُرُهُ لَیُسْجَنَنَّ وَلِیَکُوناً مِّنَ الصَّاغِرِینَ

''(تب زلیخا ان عورتوں سے بولی جو اپنے ہاتھ کاٹ چکیں تھیں)بس یہ وہی تو ہے جس کے بارے تم سبمجھے ملامت کرتی تھیں اور ہاں بے شک میں اس سے اپنا مطلب حاصل کرنے کی خود اس سے آرزو مند تھی مگر اس نے اپنی عصمت قائم رکھی اور جس کام کا میں حکم دیتی ہوں اگر یہ نہ کرے گا تو ضرور قید بھی کیا جائے گا اور خوار بھی ہوگا''۔

نکات:

نفسیاتی اور معاشرتی شرائط انسان کے عکس العمل میں اثر انداز ہوتے ہیں جب زلیخا اپنے برے کام کے آشکار ہونے سے ڈری تو''غلقت الابواب'' دروازے بند کر ڈالے ،لیکن جب مصر کی عورتوں کو اپنی طرح دیکھتی ہے تو علی الاعلان کہتی ہے''انا راودته'' میں اس کی آرزومند تھی ۔

اسی طرح جب کسی معاشرے میں برائی کا احساس ختم ہوجاتا ہے تو ان کے لئے گناہ بڑے آسان ہو جاتے ہیں۔ شاید اسی کو روکنے کے لئے ہم دعائے کمیل میں پڑھتے ہیں''اللهم اغفرلی الذنوب التی تهتک العصم '' پروردگارا! میرے ان گناہوں کو بخش دے جو حیا کے پردے کو چاک کر دیتے ہیں ۔ کیونکہ شروع میں انسان کے لئے گناہ کرنا سخت ہوتا ہے لیکن جب حیا و شرم ختم ہوجاتی ہے تو پھر گناہ کرنا آسان ہو جاتا ہے ۔