1۔ کبھی کبھی زیادہ متاثر کرنے کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ انسان علمی قدرت اور کمالات کو دوسروں سے بیان کرے ۔(نَبَّأْتُکُمَا بِتَأْوِیلِهِ)
2۔ فرصت سے خوب فائدہ اٹھانا چاہیئے ۔(نَبَّأْتُکُمَا بِتَأْوِیلِهِ... إِنِّی تَرَکْتُ مِلَّ...) جناب یوسف (ع)نے تعبیر خواب سے پہلے انکی تربیت اور عقیدہ کی اصلاح شروع کی۔
3۔ اپنی معلومات اور علم کو خدا کی عطا قرار دینا چاہیئے ۔(عَلَّمَنِی رَبِّی )
4۔ تعلیم کاہدف تربیت بھی ہے(عَلَّمَنِی رَبِّی )
5۔ خداوندعالم حکیم ہے لہٰذا بغیر کسی وجہ کے اپنے علم کے دروازے ہر کس و ناکس پر نہیں کھولتا(عَلَّمَنِی رَبِّی ) اس لئے کہ میں نے( تَرَکْتُ مِلَّ قَوْمٍ لاَ یُمِنُونَ) اس قوم کے عقیدہ کو چھوڑ دیا جو ایمان دار نہیں ہے ۔
6۔جو کفر کی ظلمتوں سے فرار کرتا ہے اسکی نور ِعلم تک رسائی ہوتی ہے(عَلَّمَنِی رَبِّی... إِنِّی تَرَکْتُ) میرے علم کا سبب کفر کو ترک کرنا ہے ۔
7۔ تمام ادیان آسمانی میں توحید اور معاد کا عقیدہ ایک دوسرے کے ساتھ لازم ہے ۔(قَوْمٍ لاَ یُمِنُونَ بِاﷲِ وَهُمْ بِالْآخِرَ هُمْ کَافِرُونَ )
8۔ ایمان کی بنیاد تولیٰ اور تبرا ہے لہٰذا اس آیت میں کفار سے برائت اور بعد والی آیت میں اولیاء الٰہی سے تولیٰ کا تذکرہ ہے۔(إِنِّی تَرَکْتُ...واتبعت)