1۔ انبیاء (ع)بھی معمولی راستوں سے اپنی مشکلات حل کرنے کے لئے اقدامات کرتے ہیں اور یہ توحید و توکل الٰہی کے منافی بھی نہیںہے۔(اذْکُرْنِی عِنْدَ رَبِّکَ)
2۔ ہر تقاضا رشوت نہیں ہے(اذْکُرْنِی عِنْدَ رَبِّکَ) جناب حضرت یوسف (ع)نے ہدایت اور تعبیر خواب کے لئے کوئی اجرت اور رشوت کی درخواست نہیں کی بلکہ فرمایا کہ میری مظلومیت کی خبر بادشاہ تک پہنچادو۔
3۔عام طور پر لوگ کسی مرتبے ، مقام اور آسائش کے بعد پرانے دوستوں کو بھول جاتے ہیں ۔( فَأَنسَاهُ الشَّیْطَانُ)
4۔ حضرت یوسف (ع)کا قید خانہ سے نکلنا اور تہمت سے بری ہونا، شیطان کے اہداف کے خلاف تھا لہٰذا اس نے جناب یوسف (ع)کی یاد کو ساقی کے ذہن سے محو کرنے کی سازش کی( فَأَنسَاهُ الشَّیْطَانُ)
(43) وَقَالَ الْمَلِکُ إِنِّی أَرَی سَبْعَ بَقَرَاتٍ سِمَانٍ یَأْکُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَسَبْعَ سُنْبُلَاتٍ خُضْرٍ وَأُخَرَ یَابِسَاتٍ یَاأَیُّهَا الْمَلَأُ أَفْتُونِی فِی رُیَای إِنْ کُنتُمْ لِلرُّیَا تَعْبُرُونَ
''اور (ایک دن)بادشاہ نے (بھی خواب دیکھا اور)کہا کہ میں نے دیکھا ہے کہ سات موٹی تازی گائیں ہیں انکو ساتھ دبلی پتلی گائیں کھائے جاتی ہیں اور سات تازی سبز بالیاں اور (سات) سوکھی خشک بالیاں خواب میں دیکھی ہیں اے (میرے دربار کے)سردارو! اگر تمہیں خواب کی تعبیر آتی ہے تو میرے (اس) خواب کے بارے میں نظریہ پیش کرو''۔