ایک تعجب آور نکتہ :
جب شیعیان اہلبیت (ع) خانہ خدا کی زیارت سے مشرف ہوتے ہیں تو اس وحدت کو محفوظ رکھنے کے لیے جس کا حکم ائمہ اہلبیت(ع) نے دیا ہے وہ اہلسنت برادران کی نماز جماعت میں شرکت کرتے ہوئے مسجدالحرام اور مسجد النبّی(ص) میں با جماعت نماز کا ثواب حاصل کرتے ہیں_ تو اس وقت سب سے پہلی چیز جو انکی توجہ کو اپنی طرف جلب کرتی ہے یہ ہے کہ وہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ امام جماعت سورة الحمد کی ابتداء میں یا تو بالکل بسم اللہ پڑھتے نہیں ہیں یا اگر پڑھتے ہیں تو آہستہ اور مخفی انداز میں پڑھتے ہیں حتی کہ مغرب و عشاء کی نماز میں جنہیں با آواز بلندپڑھا جاتا ہے _
حالانکہ دوسری طرف وہ اس بات کا بھی مشاہدہ کرتے ہیں کہ موجودہ قرآن مجید کے تمام نسخوں میں کہ جو اکثر مکہ مکرّمہ سےشائع ہوتے ہیں سورة حمد کی سات آیات ذکر کی گئی ہیں جن میں سے ایک بسم اللہ ہے_ یہ بات سب کے لیے تعجب کا باعث بنتی ہے کہ قرآن مجید کی سب سے اہم ترین آیت '' بسم اللہ'' کے ساتھ یہ سلوک کیوں کیا جارہا ہے؟ او رجس وقت لوگ ہم سے سوال کرتے ہیں اور ہم انکے سامنے اس بارے میں اہلسنت کے مذاہب و روایات کے اختلاف کا تذکرہ کرتے ہیں تو ان کے تعجب میں اور بھی اضافہ ہوتا ہے_
اس مقام پر ضروری ہے کہ پہلے ہم اس مسئلہ میں موجود فتاوی اور اس کے بعد بحث میں وارد ہونے والی مختلف روایات کی طرف رجوع کریں_