بزرگان دین کی قبور کی زیارت کے مثبت آثار
اگر لوگوں کو صحیح تعلیم دی جائے کہ ہر قسم کے افراط وتفریط سے پرہیز کرتے ہوئے ان مزاروں کے پاس یاد خدا میں رہیں اور اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہوئے اولیائے الہی کی افکار سے الہام لیں تو یقیناً یہ قبریں تعلیم و تربیت کا مرکز اور اللہ تعالی کی طرف توبہ اور تہذیب نفوس کا محور بن جائیں گیں_
یہ بات ہمارے لیے تجربہ شدہ ہے کہ ہر سال آئمہ اطہار اور شہدائے راہ حق کی قبور کی زیارت کو جانے والے لاکھوں زائرین، بہتر جذبہ اور نورانی، صاف اور پاکیزہ دل کے ساتھ واپس آتے ہیں اور اس زیارت کی نوارنیت ،کافی عرصہ تک انکے عمل سے نمایاں ہوتی ہے_ اور جب یہ لوگ ان بزرگان کو درگاہ ربُّ العزّت میں شفاعت کے لیے پکارتے ہیں اور اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی توبہ اور دینی و دنیوی حاجات طلب کرتے ہیں تو روحانی اورمعنوی رابطہ برقرار کرنے کی خاطرانکے لیے ضروری ہوتا ہے کہ حتماً گناہوں سے دوری اختیار کریں اور نیکی و پاکی کے راستے پر چلیں_ اسطرح یہ توسّل انکی نیکی کا باعث بنتا ہے_
علاوہ بر این بزرگان کی طرف یہ توجّہ اور توسّل اور اللہ تعالی کی بارگاہ میں ان سے شفاعت طلب کرنا انسان کو مشکلات کے مقابلے میں باہمت بناتا ہے اور مایوسی و ناامیدی کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے اور اس کے جسمانی و روحانی درد و غم کا مداوا بنتا ہے_ اس کے علاوہ اور بہت سی برکتوں کا موجب بنتا ہے_
ہم زیارت، شفاعت اور توسّل والے مسائل میں کج فہمی کی وجہ سے کیوں لوگوں کو ان روحانی وجسمانی اور معنوی برکتوں سے محروم کریں؟ کونسی عقل سلیم اس بات کی اجازت دیتی