33%

ثقافتی تخریب کاری

اس مقام پر یہ سوال اٹھتا ہے: عالمی استکبار ہماری تہذیب و ثقافت کے خلاف تخریبی رویہ اختیار کرنے کے لئے کیوں کمر بستہ، ہمارے مذہب و تمدن کو نابود کرنے کے کیوں درپے ہیں؟

یہ سوال، بہت ہی بر محل، اچھا اور مناسب ہے، بے شک استکباری جنگ کا منصوبہ بنانے والے لوگوں اور عالمی استکبار کے نزدیک، ہمارے تمدن اور اسلامی ثقافت کی کوئی اہمیت نہیں ہے، ان کے لئے یہ بات کسی خاص اہمیت کی حامل نہیں ہے کہ وہ اس کے بدلہ کوئی تہذیب و ثقافت پیش کریں؛ بلکہ وہ تو سرے سے کسی تہذیب و ثقافت اور تمدن کے پیشوا اور امن کے سفیر ہی نہیں ہیں کہ کسی تمدن کے بارے میں سوچیں۔ ان میں برائے نام بھی تہذیب نہیں پائی جاتی ہے کہ ان کو کسی تمدن اور تہذیب کے مٹانے کے بارے میں غور و خوض کی ضرورت پڑے، اس (تہذیب و ثقافت اسلامی ) کے بدلہ کسی اور تمدن اور ثقافت کو لانے کی سو چیں؛ بلکہ یہ لوگ مال و دولت اور سرمایہ کو ہر ممکن طریقہ سے ڈھونڈھ نکالنے میں خاصی مہارت کے حامل، شباب و کباب کے متوالے، سنہرے اور کالے سونے کو ہر جگہ ،بہر صورت اور ہر قیمت پر اکٹھا کرنے کی جستجو اور تلاش میں ہیں۔

جو بھی شرق و غرب کے بارے میں شناخت رکھتا ہے، بغیر کسی چوں چرا کے اس حقیقت کو قبول کر لیتا ہے۔ اسے بھی چھوڑیں، وہ سادہ لوح لوگ جو یہ تصور کرتے ہیں کہ مغرب کا سرمایہ داری اور شرق کا اشتراکیت کا نظام (کمیونزم) یہ دونوں ہماری زندگی میں انسانی اور اخلاقی کردار ادا کرتے ہیں! وہ بھی اس بات کو بخوبی جانتے ہیں۔ در حقیقت، غرب و شرق اس ملت اسلامیہ کی زندگی میں مذہبی خراب کاری، تباہی اور ایک نسل کو دوسری نسل سے جوڑنے والے ارتباطی پلوں کو ڈھانے اور بنیادوں کو جڑ سے اکھاڑپھینکنے سے، کن منافع اور مصالح کی تلاش میں ہیں؟