33%

رضا شاہ پہلوی(١)

شاہ (ملعون) ایران ١٩٢٥ء سے ١٩٤١ء تک عثمانی حکومت کے تختہ پلٹنے کے بعد زمام حکومت کو اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا۔

____________________

(١)رضا خان شاہ ایران (ملعون) پہلوی سلسلہ کا مؤسس جس نے ١٢٩٩ ہجری شمسی (ایرانی سال کے مطابق) میں حکومت کا تختہ پلٹ دیا۔ وہ (شاہ ملعون) احمد شاہ ، جو خاندان قاچار کا آخری بادشاہ اور چشم و چراغ تھا، اس کی طرف سے''سپہ سالاری'' کے منصب پرفائزہو کر اسی لقب سے مشہو ر ہوگیا۔

وزیرجنگ(دفاع) ہونے کے بعد اپنے وزارت عظمیٰ کے عہد میں قاچاری بادشاہت کے خاتمہ کی فکراس کے دل و دماغ میں پروان چڑھنے لگی۔ ابتدأ میں رضا خان (شاہ ایران ) ایران میں جمہوری حکومت اعلان کرنے کی فکر میں تھا کہ آتاترک کی طرح دین مخالف (لائیک)جمہوری حکومت لائے، لیکن اس پیش کش کی فوراً مخالفت ہوجانے کی وجہ سے، اپنے نقشہ کو بروئے کار نہ لاسکا، بلا فاصلہ کسی دوسرے حل تلاشنے کے چکر میں پڑگیا اور اپنے منصوبہ میں تبدیلی کردی۔ ٩ آبان ١٣٠٤ ہجری شمسی کے جلسہ میںعام منظوری حاصل کر لی گئی کہ قاچاری بادشاہت کو ختم کردیاجائے۔ پارلمانی قومی مجلس ،'' مجلس مؤسِّسین'' کی تاسیس کے بعد، اپنے حق میں ایسے حالات فراہم کئے کہ یہ حکومت اسی(رضا شاہ) کو سونپ دی جائے۔'' مؤسِّسین کی کمیٹی'' نے ٢١آذر ١٣٠٤ ہجری شمسی میں سلطنت کو ایرانی مہینہ کے اعتبار سے ٢٥ شہریور تک کے لئے اس کے حوالہ کردیا۔ وہ روس اور برطانیہ کی افواج کا ایران پرحملہ اور اس پرچڑھائی کے بعد استعفیٰ دینے پر مجبور ہوگیا۔ اس مدت تک ''رضاشاہ'' کے عنوان سے حکومت کے تخت پربراجمان رہا۔

وہ مختلف عوامل و اسباب کے ذریعہ مغربی تہذیب کو پھیلانے اوراس کو وسعت دینے ،اس کے ساتھ ہی اسلامی تہذیب و ثقافت کی بساط الٹنے کی ہر ممکن کوشش میں مشغول ہو گیا ۔ اس کی گستاخی اور بدتمیزی اس درجہ اوج پر پہونچ گئی کہ ایران کے ایسے شیعی اور مسلمان ملک میں، جو مرکز تشیع سے یاد کیا جاتا رہا ہے وہاں پر ١٧ دی ١٣١٤ ہجری شمسی کو ''کشف حجاب'' یعنی بے پردگی کا حکومتی حکم صادرکردیا؛ اس کے اجرا کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ اس (شاہ ملعون) کا بے پردگی کے سلسلہ میں اصرار اس بات کا سبب ہوا کہ بعد، اس نے افغانستان کو مغربی ملک بنانے کی فکر کو اپنے دل و دماغ میں پروان چڑھانا شروع کردیا کہ خود یہیخاص طور سے طبقۂ روحانیت اورعموماًتمامی مسلمانوں نے ملک گیر پیمانہ پر اس حکومت پر بہت شدّ و مدّ کے ساتھ اعتراض کرنا شروع کردیا؛ انھیں اعتراض آمیز اور بھڑکیلے اجتماعات میںاس کی اس حرکت کے خلاف ایک بہت بڑا اجتماع ہوا، جس میںحاضرین اپنی ناراضگی کا اظہار کررہے تھے۔ یا پھر برجستہ روحانی شیخ محمد تقی بہلول کی پردہ فاش تقریر جس نے ''رضاخان'' کی دین مخالف تحریکوں کو اجاگر کر کے اس کے منصوبوں کو ناکام بنا دیا۔ پھر لوگوں میںاعتراض کی آگ اوربھڑک گئی۔ رضا خان کے جلادوں نے اس ملعون کے حکم سے اس مسجد پر بے شرمانہ ناگہانی حملہ کروادیا؛ لوگوں کو گولیوں کی باڑھ پر باندھ دیا۔ اس حملہ میں تقریباً تین ہزار لوگ شہید ہوگئے، پھر بھی شاہ نے صرف اسی جرم و جنایت پر اکتفا نہیں کی؛ بلکہ جیسے ہی اس بات کا احتمال دیا کہ عمومی اور عوامی قیام برپا ہوسکتا ہے، مشہد کے تمام مبارز علماء اور مجاہدین کو گرفتار کرکے جلا وطن کردیاگیا۔جلا وطن علماء میں سے کچھ کو تہران روانہ کر دیا گیا، ان میں سے تین معروف، سرشناختہ اور مسلّم مجتہد تھے؛ بلکہ ان کا شمار مراجع کرام کی فہرست میں ہوتا تھا۔ اُن میں سے کچھ کے نام درج ذیل ہیں :

آیة اللہ الحاج آقا ئے حسین قمی صاحب قبلہ و کعبہ ، آیة اللہ الحاج آقائے سید یونس اردبیلی صاحب قبلہ و آیة اللہ الحاج شیخ آقائے محمد آقا زادہ صاحب قبلہ دامت برکاتہم کے نام ہیں۔ سب سے عجیب بات یہ ہے کہ رضاخان کے حکم سے حضرت آیةاللہ آقازادہ صاحب قبلہ کو خلع لباس کردیاگیا، اور پولس کے اعلیٰ افسر ''سرپاس'' کے زمانہ میں(جو اس وقت تھانہ کا انچارج تھا) ڈاکٹر احمدی کے ذریعہ (زہر کا) انجکشن د لواکر موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس طرح وہ شہادت کے بلند درجہ پر فائز ہو گئے ۔ ''مترجم فارسی''