صاحبان قلم اور مفکرین مغرب پرستی میں پیش پیش
مغربی تہذیب کی طرف جھکاؤ اور اس کی طرف دعوت دینے اور ان کے دامن میں پناہ لینے کی تشویق کرنے والے قافلہ میں، صاحبان قلم اور ادباء کے ایسے محترم چہرے سامنے آئے جنھوں نے اپنی دعوت کو کتابوں، تصنیفوں، تحریروں اور اپنے ادبی آثار کے ذریعہ قوت بخشی (بلکہ اپنی تحریروں کو اجانب کے نام وقف کر دیا۔) میں اس مقام پر (اس بحث میں) ان افراد میں سے کچھ کی طرف اشارہ کر رہا ہوں: تاکہ اس نسل کے جوان، اس بات سے بخوبی آگاہ ہو جائیں، کہ کس قدر رہبران کفر، عالمی استکبارا ور سامراج کے کالے کرتوت، ان کی قدرت اور حیثیت کتنی زیادہ ہے جس کو امت اسلامیہ اور اس کی تہذیب و ثقافت کے خلاف، اس نسل سے پہلے والی نسلوں کے لئے، کن کن دسیسوں، حیلوں اور اپنی چالوں کو بروئے کار لائے اُن سب کو اچھی طرح سے پہچان لیں۔ (سوچ سمجھ کر کوئی مناسب قدم اُٹھائیں۔ مترجم)
ڈاکٹر طہ حسین اور مغربی تہذیب کی دعوت
عرب سماج میں کچھ مصنفین اور قلم کاروں نے مغربی تہذیب کی طرف میلان کا اظہار کیا، جن میں ڈاکٹر طہ حسین کا نام پیش پیش اور سر کردہ لوگوں میں لیا جاتا ہے؛ ڈاکٹر طہ حسین کی شخصیت اتنی عظیم اور بلند ہے کہ عربوں کے درمیان اس مصری صاحب قلم کا نام ادبیات عرب میں تکیہ گاہ اور ریڑھ کی ہڈی نیز سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔
''ڈاکٹر طہ حسین'' نے مغربی (انگریزی)تہذیب و تمدن اور ثقافت کے متعلق اپنے اشتیاق اور عشق کو بڑی ہی بے صبری سے ظاہر کرنا چاہا ہے، اس حد تک کہ جب یہ اپنے وطن یعنی اپنے ملک مصر پلٹ کر آئے تو اپنے یہاں کے لوگوں کو اسلامی تہذیب و ثقافت یعنی اپنی ہی تہذیب سے دوری اختیار کرنے پر زور دینے لگے۔ مغربی تہذیب کے اختیار اور اس کے قبول کرنے نیز ان (انگریزوں) کے قدموں میں پناہ لینے کی تلقین کرنے میں مشغول رہے؛ اچھے برے اور تلخ و شیریں غرض کہ انگریزوں کی تمام چیزوں کو قبول کرنے اور ان سب کو اپنانے کی مستقل دعوت دیا کرتے تھے۔