16%

قاسم امین(١)

قاسم امین صاحب کا شمار عریانیت کی طرف دعوت دینے والوں اور پردہ سے مطلق آزادی بنام آوارگی کے دعویداروں میں ہوتا ہے، جو مغربی تہذیب و تمدن سے وابستگی اور اس کو ہر قیمت پر قبول کرنے کی مصرانہ دعوت دیتا اور اسی تہذیب میں گھل ملکر اس (انگریزی تہذیب و ثقافت) میں فنا ہو کر بالکل ویسے ہی ہو گیا تھا۔ اس نے اپنی کتاب ''المرأة الجدیدة'' (عصر حاضر کی خاتون) میں لکھا ہے:''اور یہ وہی درد ہے جس کے علاج کے لئے ہمیں لازم اور مناسب اقدام کے لئے اٹھ کھڑے ہونا چاہئے، اس لئے کہ اس درد کی کوئی اور دوا نظر نہیں آتی، سوائے اس کے کہ ہم اپنے بچوں کو مغربی تہذیب و تمدن کے اعتبار سے ان کی شناخت کرائیں اور اس کے متعلق ضروری آگاہی فراہم کرائیں اور اصول و فروع کے تمام امور میں مغربی تمدن کی اساس اور اس کے معیار پر اپنے بچوں کی تربیت کریں۔ اب وہ وقت آگیا ہے (مجھے امید ہے کہ دیر نہیں لگے گی) جب حقیقت اپنے آپ دمکتے اور چمکتے سورج کے مانند ہماری نظروں کے سامنے آشکار ہوجائے گی، اس وقت ہم مغربی (انگریزی) ثقافت اور تہذیب و تمدن کی اہمیت کو بخوبی سمجھ لیں گے نیز ہمیں یقین حاصل ہو جائے گا کہ

____________________

(١)قاسم امین بیسویں صدی کے نصف میں ان عرب مسلمانوں میںایک ایسا پیش قدم انسان ہے جو مغربی تہذیب و تمدن کے رجحان کارواج دینے والا اورپورے معاشرہ کو اس کی طرف دعوت دینے والا ہے۔ اس نے پہلی مرتبہ اسلامی دنیاوی رجحان کے قوانین اور قواعد و ضوابط تدوین کئے ہیں اور ان کو انتزاعی اور احتیاط کے طور پر نہیںجاتاہے، بلکہ ان قوانین کو معاشرہ کے حیاتی مسائل کے عنوان سے بنا کران کو بیان کیا ہے۔ قاسم امین کی نظر میں، عقل، علم کی حکایت کرتی ہے اور عقل کا فائدہ تب ہے جب وہ سماج اور معاشرہ کی بیماریوں اور اس کے تمام جوانب اور پہلوؤںسے، اس کے علاج کے لئے اپنے خاص اورذاتی تدبیروںکو ڈھونڈھ نکالے اور اُن کوبروئے کارلائے۔اس نے اپنی کتاب ''اَلْمَرْأَةُ الْجَدِیْدَةُ '' (دور حاضر کی خاتون) میں یہ اعلان کردیا کہ صرف علم ہی حقیقت اور فائدہ کے حصول کی اور فائدہ کے حصول کی مفید و معتبربنیاد، اور اس کی وہ با عظمت چیزوں کی واحدنشانی ہے۔ ''امین'' انیسویں صدی کے دوسرے اورمغربی دانشوروںکی طرح ہر موجود کو مشاہدات کے ذریعہ ثابت کرنے والوں کا حامی اوربالکل انھیںکے جیسا نظریہ رکھتا تھا کہ اسلامی معاشرہ کی نجات، ان کی نادانی اور جہالت پر قابو پاکرجہالت اور نادانی اس کو دور کرنے میں ہے، اور علم کی وسعت اس کی وضاحت اور عوامی سطح پر اس کو پھیلانے اور اس کورواج میں ہے۔ امین کے لادینیت کے نظریہ کے مطابق، خیر، ایسی چیز ہے جس کو عموماً عملی طور پردیکھاجاسکتا ہو یعنی اس کے عمل کے اعتبارسے اس کا مشاہدہ فطری ہے۔ کجا اس کے وجود کی حقیقت اور معنوی یا اخلاقی حالت۔ احتمالاً وہ پہلا روشن فکرمسلمان ہے جس نے علانیہ طور پر اعلان کردیا: '' کہ واقعی آزادی کے حامل ملک میں، کسی کے لئے بھی خدا اور اس کے پیغمبروں کے انکار کردینے اوران کے نہ ماننے پر ملک بدر کر دیا جائے یہ کسی کے لئے زیب نہیں دیتا کہ وہ ایک شخص کواس کے وطن سے نکال دے، یا پھر وہاں کے لوگوں کے رسم و رواج اور آداب و قوانین سے ہراساں رہے امین اس بات کے قائل ہونے پر مجبور ہوگیا تھا کہ معاشرہ میں ''دائمی اورنا محسوس تبدیلی حاکم ہے'' اور یہ چاروں قدرتیں اور طاقتیں اس تبدیلی کے طریقہ اور انداز اوررویہ کوتعیین کرتی ہیں: فطری ماحول، ایک دوسرے سے وراثت حاصل کرنا، یا قومی حالات کی فراہمی، معاشرہ سے حشر و نشروعلمی تحقیقات اورمختلف نئی نئی ایجادات۔(روشن فکران عرب وغرب، ہشام شرابی، ترجمۂ عبد الرحمٰن عالم سیاسی مطالعات کا بین الاقوامی دفتر، طبع اول، تہران ١٣٦٨ ھ شمسی مطابق ١٩٨٩ء ص ١٠٤سے ١٠٨ تک) ۔