اور علمی سائنسی اور تکنیکی زندگی میں بالکل اسی قوم کی جیسی ہو جائے جس قوم کو اپنی زندگی کے لئے مثال اور نمونہ بنانا چاہتی ہے۔ اور ان اجزاء اور عناصر کے درمیان فرق پیدا کرکے تہذیب و ثقافت اور تمدن کے لئے مفید اجزاء کو اختیار کرے گا اور وہ اجزا جو غیر مفید اور غیر مطلوب ہوں ان کو چھوڑ دے گا اور یہ محال ہے۔
ٹوین بی ( Toynbee ) کے نظریہ پر تنقیدانہ جائزہ
اس نظریہ پر بہت سے محققین اور صاحبان نظر نے تنقید و تبصرہ کیا ہے، اور یہ ثابت کیا ہے کہ دو ثقافتوں کا انتقال اور میل ملاپ، بلا شک و شبھہ ممکن اور فطری عمل ہے اور اس اعتبار سے ثقافتوں اور تمدن کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، جن کو درج ذیل عبارت سے تعبیر کیا جاتا ہے:
١۔ علمی شعبہ
٢۔ ثقافتی شعبہ۔
١۔ علمی شعبہ :یہ شعبہ ثقافتی شعبہ سے متاثر ہوتا رہتا ہے اور اس کے اثر کو قبول کرتا ہے، ثقافتی شعبہ کے حالات اور موقعیت کے سبب اپنے حقیقی وجود کو حاصل کرلیتا ہے ، جیسا کہ ثقافتی امور، علمی امور کو متاثر کرتے ہیں اور اس کو اپنے ہی رنگ و روپ میں اپنے اعتبار سے ڈھال لیتے ہیں، اسی وجہ سے علمی مسائل مثال کے طور پر جراحی ''آپریشن کرنا، دوائیاں بنانا، طبابت، حساب، ریاضی، مصنوعی بجلی اور برق کے بارے میں معلومات، ذرات اور مختلف مشینوں کے بنانے کا علم، یہ سب کے سب ایسے مسائل ہیں جن کا علم اخلاق، معرفت، عقائد نیز فلسفہ و ادب سے گہرا ربط ہے اور یہ سب انسان کی تمدنی زندگی میں دخیل ہیں، ایسا کہ پہلی قسم (علمی مسائل) کے مسائل دوسری قسم کے مسائل کے سبب وجود میں آتے ہیں، جیساکہ اوپر ذکر کیا گیا ہے، یہ سب ثقافتی مسائل کے ماتحت ہیں۔ اسی وجہ سے علم کیمیا ( Chemistry ) اور دوا بنانے کا علم، ان سب امور میں اس بات کا امکان پایا جاتا ہے کہ صحیح زاویہ نگاہ اور انسانیت کی ترقی میں ان کو استعمال کیا جائے۔ حکمت، طبابت اور زراعت یہ سب کے سب کھانے پینے کے مقصد کے حصول کی راہ میں کام آنا چاہئے، ٹھیک اسی طرح اس بات کا بھی امکان پایا جاتا ہے کہ صحیح آگاہی اور معلومات کے نہ ہونے اور انسانی اقدار اور اخلاقی معیار کے فقدان کے باعث، انسانی اقدار کے خلاف بروئے کار لایا جائے۔ ان جان لیوا گیسوں کو کیمیکل بم بنانے کے کام میں استعمال کیا جائے تو یہ سب انسانی اقدار کے فقدان کا سبب ہیں۔