ذرات اور آئیٹم کا بھی یہی حال ہے اس کو بھی صحیح اور مناسب کاموں میں استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن اس سے فائدہ حاصل کرنا انسانوں کی سوچ اور ان کی تہذیبوں میں اختلاف کی وجہ سے مختلف ہے، یعنی علمی روابط کے شرائط کا مختلف ہونا جو کبھی قابل اطمنان ہے اور کبھی غیر قابل اطمنان ہے۔
الف: علمی روابط کے ساتھ فضا کا اطمینان بخش ہونا
اس بات سے مندرجہ ذیل نتیجے اخذ کئے جاسکتے ہیں:
اگر کوئی قوم ایسی ثقافتی، مذہبی، اخلاقی اور عقائد کی حقیقت، واقعیت اور اصالت کو محفوظ کرلے، تو علمی روابط اور تہذیبوں کا ایک دوسرے کی طرف منتقل ہونا اسے نقصان نہیں پہونچا سکتا؛ اس لئے کہ جیسے ہی علمی مسائل ایک ثقافت سے رشتہ اور رابطہ توڑکر دوسری ثقافت اور تہذیب میں داخل ہو تے ہیں، تو وہ علم جو اس سے پہلے والی تہذیب و ثقافت کے باعث دوسری والی تہذیب کے متحمل نہیں ہو سکتے اور لوگ بھی دوسری تہذیب و ثقافت سے پوری طرح متاثر ہوئے بغیر صرف اس کے علمی گوشہ کو قبول کر لیں گے۔ درحقیقت تہذیب و ثقافت اور تمدن اس چھننے اور صافی کے مانند ہے جو علمی مسائل سے متعلق ہر چیز کو چھان پھٹک کر صاف و شفاف بنا دیتا ہے؛ اخلاقی حالات سے لیکر قوم و ملت کی موجودیت اور اس کے حضور کے ساتھ ساتھ اجنبی تہذیب و ثقافت کے تمام حالات کو صاف و شفاف بناتا چلا جاتا ہے۔ وہ زہریلے عناصر جو امت مسلمہ کے جسم سے کوئی تال میل نہیں رکھتے ہیں، لیکن ان کی تہذیب اور ثقافت کی ہمراہی کر تے رہتے ہیں اس سے ان لوگوں کو دور رکھتا ہے۔
ب: علمی روابط کے ساتھ فضا کا غیر یقینی ہونا
لیکن اگر کسی ثقافت کو اختیار کرنے والی قوم ضعیف و ناتواں ہو اور اس کے پاس ایسے عناصر کا فقدان ہو جو اخلاقی فکری اور استقامت کے لحاظ سے اجنبی ثقافت سے اسے محفوظ رکھ سکے تو ایسی قوم اگر اپنی زندگی میں بیگانہ اقوام کی ثقافت کے حصول میں اپنے آپ کومشغول کردے یا علمی رابطہ رکھتی ہے تو ان علمی مسائل کے ساتھ اس بیگانہ قوم کی اخلاقی ثقافتی سیاسی حالات و افکار کا منتقل ہونا ناگزیر ہے اور علمی مسائل کو ان ثقافتی مسائل سے علاحدہ کرنا جس کو انتقال تہذیب کے حوالہ سے منتقل کرنے والی قوم کی حمایت حاصل ہے اس کا جدا کرنا محال اور اگر محال بھی نہ ہو تو یہ امر اس کے لئے بس دشوار کام ہوگا۔