16%

دو تاریخی تجربے ہمارے لئے اس حقیقت کو آشکار کرتے ہیں:

١۔ اوائل کی کامیابیوں کے تجربے

اور وہ تجربہ روم و ایران کی فتوحات ہیں۔ اس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے کہ ملت اسلامیہ ان کامیابیوں اور فتوحات کے دوران، اداری، دفتری اور عدلیہ کے مختلف مسائل سے لیکر حکمت، طبابت، کیمیا ( Chemistry ) اور علم نجوم کو بغیر اس کے کہ ان اخلاق و آداب، تہذیب و ثقافت نیز ان کے تمدن سے متاثر ہو ں ان کے علوم اور سائنسی معلومات کو ان سے اخذ کیا ہے، بلکہ ان مسائل اور علوم کو اپنی تہذیب میں ڈھالا اور اپنے منشا اور چاہت کے مطابق اس کو استعمال کیا۔

(٢) دور حاضر کی مغرب پرستی کا تجربہ

ا ور وہ تجربہ اس وقت کا تجربہ ہے جب امت مسلمہ مغربی تہذیب و تمدن کو گلے لگا رہی تھی، اس وقت عثمانی حکومت کے خاتمہ کے بادل موت کی طرح اس کے سر پر منڈلا رہے تھے اور لوگ پروانہ وار فرنگی تہذیب و تمدن کے اپنانے میں منہمک تھے۔

تجربی علوم میں بہت سارے مسائل کی ضرورت اور اس کی احتیاج، مسائل ریاضی کے حل کی ضرورت اور اداری امور کی انجام دہی سے متعلق مشکلات اور ضروریات نے ملت اسلامیہ کو اس بات پر مجبور کر دیا کہ مغربی تہذیب و تمدن کی طرف دست نیاز بڑھائیں اور آہستہ آہستہ ان کے حلقہ بگوش ہو جائیں۔ چونکہ ثقافتی اور مذہبی بنیادیں اتنی مضبوط نہیں تھیں، اس لئے وہ اس پر ثابت قدم بھی نہیں رہ پائے، اور وہ خود اپنی حفاظت پر بھی پورے طور سے قادر نہ تھے، اسی وجہ سے غرب نے اپنی خاص ثقافت اور تہذیب کو ان کے اوپر لاد کر اپنے ہی رنگ و روپ میں ڈھال لیا۔