مقدمہ
کتاب حاضر ''الجسور الثلاثہ ''کے عنوان پر حضرت آیة اللہ محمد مھدی آصفی صاحب قبلہ دام ظلہ العالی اس کتاب (الجسور الثلاثہ) کو رشتہ تحریر میں لائے، جس کو مرکز ''الغدیر'' نے زیور طبع سے آراستہ کیا۔
اپنے اس تحلیل و تجزیہ میں، مؤلف نے مغربی و انگریزی، ثقافتی اور مذہبی یلغار کو جس میں ماضی اور دور حاضر کے باہمی روابط کے پلوں کو توڑ کر عصر حاضر کو گذشتہ امتوں سے رشتہ توڑ کر اسے اپنے حملے کا نشانہ بنایا ہے، اسی حملہ کی وضاحت کرتے ہوئے مؤلف نے ان باہمی روابط پیدا کرنے والے پلوں کا تعارف کرایا ہے، باہمی روابط پیدا کرنے والے پلوں، ان کے کردار نیز ان کی حیثیت کو بھی بیان کیا ہے اور یہ باہمی ربط پیدا کرنے والے پل حسب ذیل ہیں:
گھر، مدرسہ اور مسجد
علامہ مجاہد حضرت آیة اللہ محمد مہدی آصفی صاحب قبلہ کی نظر میں قدامت پسندی اور (فکرنو) جدت پسندی میں کوئی مقابلہ اور ٹکراؤ نہیں ہے۔ اس لئے کہ کوئی بھی سمجھدار انسان نئے پن اور جدت پسندی کی ضرورت اور اس کی حتمیت اور قطعی ہونے کا منکر نہیں ہے، چونکہ جدت پسندی اور فکرنو یہ ہمارے معاشرہ کی شدید ضرورت ہیں؛ بلکہ ہمارے اختلاف کا اصلی مرکز اور محور، کاٹ چھانٹ اور اس کے ملانے (جوڑ توڑ) سے متعلق ہے۔ اسی بنا پر اعتراض اور اشکال کو مندرجہ ذیل دو بنیادی سوالوں میں خلاصہ کیا جاسکتا ہے:
(١) ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیلی اور تغیر کیسے واقع ہو سکتا ہے؟
(٢) کیا یہ کام جڑوں کے کاٹ دینے اور ان کو سرے سے ختم کر دینے سے امکان پذیر ہو سکتا ہے؟ یا ان کو آپس میں ملا دینے اور ان کی بنیادوں میں ایک نئے روابط نیز باہمی اور اخلاقی بالا دستی کے ذریعہ اس بات کو ممکن بنایا جا سکتا ہے کہ قوموں اور نسلوں کو ایک دوسرے سے نزدیک اور ان کو باہم متصل کیا جائے؟