16%

مصر و ایران میں عربی رسم الخط کے تبدیلی کی جد و جہد

دوسرے مستعار حکام اور اہل قلم حضرات نے بہت زیادہ کدّ و کاوش کی ہے کہ دنیائے اسلام کے مختلف ممالک سے عربی رسم الخط کو مطلق ختم کردیا جائے، اگرچہ ان کی یہ بیہودہ اور واہی کوششیں رنگ نہ لاپائیں اور اس طرح کی تمام کوششیں محکوم بہ شکست اور بھاری ہزیمت سے روبرو ہوگئیں۔

ایران میں، رضا خان (شاہ) پہلوی (مشہورو معروف ڈکٹیٹر) اس مہم کو سر کرنے کی کمر ہمت باندھی۔ اس نے زرخرید اہل قلم کی ایک جماعت کو اس کام کی انجام دہی کے لئے تیار کر رکھا تھا تاکہ وہ لوگ عربی رسم الخط کے نوشتہ جات اور تحریروں کو لاتینی ( Latin ) رسم الخط میں تبدیل کردیں، لیکن اس کام کی انھیں توفیق حاصل نہیں ہوپائی۔

اسی طرح مصر میں بھی بعض اہل قلم اور اخباروں نے اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانا چاہا، و ''مقتطف'' نامی مصری جریدہ نے اس دعوت عام کو اپنے صفحات پر جگہ دی۔ ڈاکٹر محمد محمد حسین نے اپنی کتاب ''الاتجاھات الوطنیة'' میں یوں تحریر کیا ہے:''عبد العزیز فہمی'' مصر کی علمی کمیٹی کے سب سے برجستہ اور اہم رکن کہ جو، (١٩٤٣ کی قائم کردہ ملکی کمیٹی کے تیسرے سربراہ تھے، جنھوں نے ملک گیر پیمانہ پر نمائندہ کمیٹی کو تشکیل دیا تھا۔) جس نے عربی تحریر کو لاتینی رسم الخط میں لکھے جانے کی پیش کش کی اور اس کی منظوری کے لئے لائحۂ عمل پیش کیا، وہ رپورٹیں (گزارشات) جو اس کمیٹی کے تین سال کے متعدد اجلاس میں فیصلہ کے بعد بطور نتیجہ وجود میں آئیں، وہ وہاں کے اخباروں میں چھاپی بھی گئیں اور دوسری مختلف علمی کمیٹیوں کو بھی ارسال کی گئی۔''(١)

____________________

(١)الاتجاہات الوطنیة ف الادب المعاصر، ڈاکٹر محمد محمد حسین، ص٣٣٨۔