16%

آتاترک اور مغرب پرستی کی دعوت

یہاں پر ہم نے ''آتاترک'' نامی کتاب کے مختلف حصوں میں سے اقتباس کیا ہے جس کے مصنف ''عرفان اورگا'' نے ''کمال آتاترک'' کی شخصیت اور اس سے والہانہ محبت اور عشق کا اظہار کرنے کے لئے تحریر کیا ہے۔ کتاب کے یہ مختلف حصّے، حقیقی معنوںمیں یہ اس کے اپنے ذاتی تصورات اور خیالات ہیں، اور یہ ایسے تصورات اور خیالات ہیں جن میں بالکل مبالغہ آرائی اور کمی و زیادتی کا گذر نہیں ہے۔

''اورگا'' تحریر کرتا ہے: ''آتاترک'' نے اس بات پر اطمنان اور یقین کرلیا تھا کہ اس کی جنگ دین سے ہونے چاہئے، اس لئے کہ دین سے جنگ بہت بڑی رقابت کا پیش خیمہ ہے۔ وہ اپنے بچپنے ہی سے اس بات کا معتقد تھا کہ خدا کے وجود کی کوئی ضرورت نہیں ہے، چونکہ خدا کا مفہوم غیر ناطق، گنگ، نامرئی ہے، لوگوں کو دھوکہ میں ڈالنے والا اور ہر حقیقت سے عاری ہے۔ (جیساکہ آتاترک اس بات کا قائل بھی تھا) وہ صرف انھیں محسوسات پر عقیدہ رکھتا تھا جو دیکھنے میں آسکتے ہوں اور عموماً اُن چیزوں کا مشاہدہ ممکن بھی ہو،(۱) اس (کمال آتاترک) کا

____________________

(۱)مؤلف اپنی کتاب میں اس طرح لکھتے ہیں: آتاترک اپنے عمر کے آخری حصہ میںآسمان کی طرف اپنا ہاتھ بلند کرتا تھا اور تمسخر اور تھدید آمیز انداز میں اس کی طرف اشارہ کرتا تھا۔