مختلف دبستان ادب میں عوامی لہجہ کی تعلیم پر زور
اپنے اس مقصد کو پایۂ تکمیل تک پہونچانے کے لئے عربی زبان کے مختلف مکاتب اور مراکز، دانشگاہ اور اعلیٰ تعلیم گاہوں میں تدریس کی کرسیوں اور اسی طرح عربی دنیا میں اسلام کے بڑے بڑے علمی اور ادبی جرائد کو اپنا زر خرید غلام بنا لیا تھا۔ (اس طرح ان کو اپنی خدمت میں لے لیا؛ ان تمام جرائد اور متعدد ادبی حلقوں کو اپنا ہمنوا بنا لیا تھا اور وہ بے زر خریدہ غلام بن کر ان کے تابع محض ہوگئے تھے۔ مترجم)
احمد حسن الزیات ''رسالہ اور روایہ'' نامی جرائد کے ایڈیٹر اور مدیر اعلیٰ اس طرح کہتے ہیں: ''وہ قاہرہ کے عربی زبان کے مکاتب کی تأسیس کے ابتدائی دور میں بڑے بڑے منتظمین (عربی اور اسلامی مفاد کے محافظ) اور اہل قلم ادبی مکاتب پر مسلط ہوگئے اس کے بعد بھی مصنفین اور صاحبان جرائد نے ان امور کا نظم و نسق اپنے ہاتھوں میں لے لیا؛ یہ وہی لوگ تھے جو عوامی زبان کو اہمیت دینے کے حوالے سے اور اس وجہ سے کہ کہیں زبان جمود کے سبب زمانہ کی رفتار سے پیچھے نہ رہ جائے، اس سلسلہ میں ''مجمع'' یعنی زبان و ادب کے امورِ سے متعلق انتظامیہ کو متعدد مواقع پر ٹوکا اور اس امر پر توجہ دلائی۔''(١)
____________________
(١)اللغة العربیة بین الفصحی و العامیة، ص٨١و ص٨٢۔ جیسا کہ ڈاکٹر محمد محمد حسین نے بھی اپنی کتاب
''حصوننا مھددة من داخلھا'' کے ص٢٠٤ میں اس مطلب کی یاد دہانی کرائی گئی ہے۔