جاہلی تہذیب و تمدن کو خرابات سے باہر لانا
ان تمام امور کا اصلی سبب، تہذیب کہنہ اور نو کے درمیان کا اختلاف ہرگز نہیں ہے، جیسا کہ جدت پسندی اور مغرب مآبی کی دعوت دینے والے یہ چاہتے ہیں کہ ان مسائل کی ایسی ہی تفسیر کریں، بلکہ ان کی تمام کدّ و کاوش اور اس کی کار کردگی کا اصلی راز، خاص طور سے اس نسل کو اسلام و دین سے روکنے کی طرف ہی پلٹتا ہے؛ مجموعی طور سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ''تہذیب کہنہ اور نو'' کا یہاں پر یکسر کوئی تصور بھی نہیں ہے بلکہ اُن کا اصلی مقصد دین اسلام سے مقابلہ کرنا اور اس کو نیست و نابود کردینا ہے۔
اس دعوت (قدامت پسندی اور جدت پسندی میں کوئی جنگ اور اختلاف بھی نہیں ہے) کی دلیل یہ ہے کہ خود جدت پسندی اور تہذیب نو کی دعوت دینے والے لوگ مذہبی اور ثقافتی پلوں کو ایک خاص طرز کے ذریعہ نسل نو کو قدیم جاہلی تہذیبوں سے تال میل کے لئے مصر، عراق، ایران، ترکی، شام اور اسلامی دنیا کے دوسرے ممالک میں (دین بزرگ اسلام سے بے توجہی کرتے ہوئے اس) پروگرام بنائے ہوئے ہیں۔ ان کا سارا اختلاف اور بنائے مخاصمت نسل نو کو دین مبین اسلام سے دور رکھنا ہے، جس کو وہ لوگ بیخ و بُن سے اُکھاڑ دینا چاہتے ہیں۔
اگر جدت پسندی اور فکر نو کو رواج دینے کے دعوے داروں کے ساتھ، مغرب مآبی اور جدت پسندی ہی کے دعوے دار مصر میں فرعونی ثقافت، ایران میں سامانی ثقافت، عراق میں بابلی ثقافت، ترکی میں بربری ثقافت اور دوسری بہت سی ثقافتوں کے احیا اور اس کے رواج دینے کے حامی اور اس پر مصر بھی ہیں۔... کیا ہمارے پاس ایسے حالات فراہم نہیں تھے؟ کہ ہم لوگ یہ سمجھ سکیں کہ فطری طو ر پر یہ اختلاف قدیم و جدید ثقافت کے درمیان ہے یا چپقلش اور اختلاف کی بنیاد کوئی اور چیز ہے؟ جس کے ارد گرد تمام اختلافات چکر کاٹ رہے ہیں۔
اس زمانہ میں ہم بالوضوح یہ ملاحظہ کر رہے ہیں کہ جدت پسندی کی دعوت دینے والے بڑی ہی جلد بازی کرکے اس بات کے درپے ہیں کہ تمام حالات اور وسائل سے استفادہ کرکے فرعونی، ہِخامَنشی، ساسانی، بابلی اور بربریت کے دور قدیم کی جاہلی ثقافتوں تہذیبوں اور تمدنوں کوا مت مسلمہ کی زندگی اور تمام ادبی حلقوں میں، شعر و نثر سے لیکر مجسمہ سازی، قصہ گوئی، تھیٹر، سینما، مطبوعات، تعلیمی اور درسی کتابیں، پوشاک اور معماری کے ہنر میں قدیم جاہلی تہذیبوں کا جلوہ دیکھنے کو ملتا ہے، اسی طرح چوراہوں، میدانوں، سڑکوں، محلہ جات اور پارک وغیرہ کے نام رکھنے میں قدیم جاہلی تہذیب و ثقافت کو از سر نو زندہ کر رہے ہیں۔