16%

جاہلی تمدن کے احیا میں آثار قدیمہ کا کردار

مغرب نوازی اور جدت پسندی کے دعوے دار لوگ عالمی سامراج اور استعمار گروں کی توجہات کو غیر معمولی طور پر آثار قدیمہ کی مختلف اشیا اور مسائل کی طرف مبذول کرائی ہے۔ ہمارے ممالک میں بین الاقوامی ہیئتوں اور یونسکو کے ساتھ تعاون کے ذریعہ عجائب گھروں اور چڑیا گھروں کے قیام میں کثیر مال خرچ کیا جارہا ہے، دور جاہلیت کے آثار قدیمہ کے احیا کو اپنے ملبوسات اور پہناوے کے نئے نئے رسم و رواج اور جدید فیشن کی صورت میں ہم نے جاہلی تمدن کو پھر سے زندہ کرلیا ہے۔

''فولکلور ''کی طرف ہماری جی توڑ توجہ، قلبی لگاؤ، قدیمی ہنر اور قدیم جاہلی خرافی عقائد کا احیا، ہماری زندگی میں پوری طرح غیر فطری اور پر اسرار و مرموز لگتا ہے۔ اسی طرح مبالغہ کی حدتک آثار قدیمہ کی حفاظت کا اہتمام اور اس قدر اس کا انتظام و انصرام (اس تعجب خیز اور افراطی رویہ کے ساتھ) ان (قدیمی آثار) کو اکٹھا کرنے کے لئے اتنے کثیر مال و دولت کا صرف کرنا، اس کرّوفر کے ساتھ اسکے اقدار کی حفاظت اور اس طرح سے ان کا پیش کرنا، یہ سب کچھ غیر فطری اور مشکوک نظر آتا ہے۔ ہم جب ان کار روائیوں کی تہہ میں جاکر دیکھتے اور بغور ملاحظہ کرتے ہیں تو اُن کی جڑوں میںیہودیت اور صلیبیت کے تانے بانے بخوبی نظر آتے ہیں۔

محمد غزال کہتا ہے: اس دعوت کو تجسس اور تحقیق، آثار قدیمہ کی شناخت اور باقی رہنے والی تبلیغ کی دعوت کے ذریعہ آثار قدیمہ کی تحقیق و جستجو میں ہمراہی اور ان کو تلاش کیا ہے۔ جیسا کہ دنیا کو ''توت آنخ آمون''(١) کی کشف قبر کی تبلیغ، جس کو ''لارڈ کارنفون'' نے انجام دیا، مشہور کروڑپتی ''راکفلّر'' نے دسیوں ملین ڈالر بغیر کسی عوض کے خرچ کردیئے اور ان کو مردہ عجائب گھر میں فرعونی آثار کی حفاظت کے لئے لگا دیئے، جس نے آثار قدیمہ سے متعلق ایک تعلیم گاہ (کالج) کی بنیاد بھی ڈالی۔ جیسا کہ معروف ہے کہ ''راکفلّر'' یہودی الاصل، بلکہ شدت پسند یہودی تھا، اس کا اتنی زیادہ رقم خرچ کردینا نیز بے دریغ سخاوت کا مظاہرہ کرنا اس بنا پر ہے کہ اس میں صیہونیت کے زبردست اور متعدد مفاد وابستہ اور پوشیدہ تھے۔(٢)

____________________

(١)فرعونی سلسلہ کا ١٨واں (١٣٥٠۔ ١٣٤٢ قبل مسیح) اس نے شہر ''بتس'' آمون ( Ammon ) کی پرستش کو لازم قرار دیا تھا، اس کا مقبرہ جس میں بہت سی گرانقدر اور قیمتی اشیا موجود تھیں، جن کو ١٩٢٢ء میںکشف کیا گیا۔ (مترجم فارسی)

(٢)حقیقة القومیة العربیة، محمد غزال، ص٢٠٥۔اسلام نے آثار قدیمہ پر کافی توجہ مبذول کرائی ہے اور اس کا حامی بھی رہا ہے۔ لیکن یہ توجہ قدیمی جاہلی تمدن پر فخرومبا ہات کے لئے نہیںبلکہ اس سے درس عبرت حاصل کر نے، غرور دنیا اور اس کے فریب سے بچنے کیلئے ہے۔