اس درخت سے ہمارا رشتہ ہے، اس کے بارے میں ہمیں اپنے ضمیر و وجدان اور عقل و دل میں غور کرنا چاہئے اور جب ہمیں اس شجر طیبہ اور تاریخ کے اس مبارک خاندان سے نسبت کا گہرا احساس ہوگاتو اسی تناسب سے چیلنج کے مقابلہ میں ہماری قوت، صبر و صلابت زیادہ ہوگی اور خوفناک راستوں اور لغزشگاہوں جو راہ زندگی میں ہمارے سامنے آتی ہیں ، ان کے خلاف ہمارے اندر ثبات و استقلال میں اضافہ ہوتا ہے ۔
زیارت اس استحکام کا اہم عامل ہے
زیارت سے ایک قوی پر شفقت فضا پیدا ہوتی ہے جس میں اس مبارک خاندان اور تاریخ کے اس صالح راستہ سے تہذیبی ، ثقافتی اورتحرک کی نسبت کی تاکید کی گئی ہے۔
رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم خدا، امیر المومنین ، فاطمہ زہرا، حسن و حسین ، تمام اہل بیت ، انبیاء ،اولیاء خدا اور صالح مومنین کے لئے جو زیارتیں اہل بیت سے نقل ہوئی ہیں وہ اس تہذیبی اور ثقافتی میراث سے معمورہیں اور اس راستہ پر چلنے اور اس مبارک خاندان سے نسبت ا وران کے دشمنوں اور ان سے جنگ کرنے والوں سے اعلانِ برأت کے مفہوم سے بھری ہوئی ہیں ۔
میں نے اپنی کتاب ''الدعا عند اہل البیت'' کی آخری فصل میں زیارت کے بارے میں ایک تحقیق پیش کی ہے، لہٰذا ہم نے جو بات وہاں بیان کی ہے اسی پر اکتفاء کرتے ہیں یہاں اس کی تکرار نہیں کریں گے۔