پیش گفتار
عالم اسلام کے موجودہ حالات سے باخبر حضرات یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ آج امت اسلامیہ کئی ''امتوں ''میں بٹی ہوئی ہے ۔اور ہر امت خاص نظریات اور رسومات کی پابند ہے جسکے نتیجہ میں ان کی زندگی کی باگ ڈور ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں پہنچ گئی ہے کہ جن کی بقا کا راز ہی مسلمانوں کے درمیان اختلاف پیدا کرنے میں ہے اور وہ اپنے اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے مختلف طریقوں سے سرمایہ گزاری کرتے ہیں اور اس کیلئے ہر ممکن وسیلے کو بروئے کار لاتے ہیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اسلامی فرقوں کے درمیان چند اختلافی مسائل ضرور پائے جاتے ہیں اگرچہ ان اختلافی مسائل کا تعلق علم کلام کے ایسے مسائل سے ہے جن کے موجد خود اسلامی متکلمین ہیں اور مسلمانوں کی اکثریت ان سے آگاہ تک نہیں ہے۔اور یہ بالکل طے شدہ بات ہے کہ مسلمانوں کے درمیان ان اختلافی مسائل سے کہیں زیادہ اہم ، مشترک نکات بھی پائے جاتے ہیں کہ جنہوں نے انہیں ایک دوسرے سے جوڑ رکھا ہے لیکن اختلاف ڈالنے والے افراد ، اصول اور فروع میں موجود ان مشترک نکات کو چھوڑ کر صرف اختلافی مسائل کو ہی بیان کرتے ہیں ۔
''اتحاد بین المسلمین''کی ایک کانفرنس میں انفرادی مسائل (جیسے نکاح ، طلاق اور میراث وغیرہ ہیں ) سے متعلق اسلامی مذاہب کے فقہی نظریات کا بیان میرے سپرد کیا گیا تھا چنانچہ میں نے اس کانفرنس میں ان موضوعات کے متعلق ایک تحقیقی رسالہ پیش کیا کہ جس نے تمام شرکاء کو تعجب میں ڈال دیا اس رسالہ کے مطالعہ سے پہلے کسی کے لئے ہر گز یہ بات قابل قبول نہ تھی کہ فقہ شیعہ ان تینوں موضوعات کے اکثر مسائل میں اہل سنت کے موجودہ چاروں مذاہب سے موافقت رکھتی ہے ۔