33%

چوتھا شبہ:

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ خداوند عالم نے امام کا انتخاب خود کیا ہے لیکن پھر کیوں یہ انتخاب ٢٦٠ھ کے بعد آگے نہ چل سکا اور امام حسن عسکری کی شہادت کے بعد ان کا کوئی جانشین معین نہیں ہوا ۔لہٰذا ایسا دین کہ جو قیامت تک کے لیے آیا ہے اور لوگوں کی راہنمائی کے لیے آیا ہے، راہنما کے بغیر کیسے ہوگیا؟

جواب:

اصولاً نبی اور امام کے وجود کے آثار یہ ہیں کہ وہ مکلفین(لوگوں)پر اپنی حجت کو تمام کردیں یعنی اپنے آپ کو پہچنوا دیںپھر لوگوں کا اختیار ہے کہ وہ نبی اور امام کی اطاعت کریں اور اپنے کمال تک پہنچیں۔ اگر لوگ خدا کی طرف سے معین کی ہوئی ان حجتوں کی مخالفت کرنے لگیں تو ا س کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جس فلسفہ کے تحت خدا نے ان ہستیوں کو دنیا میں بھیجا تھا وہ غلط تھا۔

یہ بات اللہ تعالی پر واجب ہے کہ وہ اس زمین پر اپنی حجت کو بھیجے جو معاشرے کو عدالت کی طرف دعوت دے اور لوگوں کی تعلیم اور تربیت کرے اس حجت کو خداوند عالم نے انبیا و امامان کی شکل میں بھیجا لیکن ان کے اس دنیا میں آنے کا مقصد اس وقت تک مکمل نہیں ہوسکتا جب تک معاشرہ خود کو اِن ہستیوں کے اختیار میں نہ دے۔ لیکن جب ظالموں اور حاکموں کے ذریعہ ائمہ کو قتل کردیا گیا تو اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ معاشرہ( Society ) پران اماموں کی حاکمیت کی حجت ہمیشہ رہنی چاہیے "( و لقدکتبنا فِی الزبورِ مِن بعدِ الذکِرِا ن الارض یرِثها عِبادِی الصالِحون ) (الانبیائ١٠٥)

(اور ہم نے زبور میں ذکر کے بعد لکھ دیا ہے کہ زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہوں گے)

پھر اس بات کا نتیجہ یہ ہوا کہ حجت تو زمین پر رہے لیکن لوگوں کی نظروں سے غائب رہے۔

امام کی غیبت کا سبب معاشرے کارویہ ہے کہ جب تک معاشرہ امام کے احکامات پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگااور طاغوت اور استعمار کی غلامی سے منہ نہیں موڑے گا اس وقت تک امام حجت خدا ظاہر نہیں ہوں گے لیکن اس نظامِ ہستی کی معنوی رہبری ان ہی کے پاس ہے۔

بس ٢٦٠ھ سے امت کی رہبری ختم نہیں ہوئی بلکہ اس وقت سے ا س عہدہ کو امام زمانہ(عج) کے حوالہ کیا گیا کہ جو زندہ ہیں لیکن لوگوں کی نظروں سے غائب ہیں اور منتظر ہیں کہ جب یہ دنیا قانون الہی کو قبول کرنے کی صلاحیت پیدا کرلے تو ان کا خدا کے حکم سے ظہور ہو اوروہ دنیا کو عدلِ الہی سے بھر دیں۔ اور یہ حقیقت دین اسلام کے تمام فرقوں میں تسلیم شدہ ہے اور مہدویت و مہدی موعود (عج) مسلمانوں کے ضروریات دین میں سے ایک ضرورت ہے۔

حجت خدا کی ذمہ داری اس زمین پر یہ ہے کہ وہ دوسری تمام مخلوقات کے لیے واسطہ فیض الٰھی ہے۔ اگر حجت خدا زمین پر نہ ہو تو خدا کے فیض اس زمین تک نہیں پہنچ سکتے یعنی زمین قابلیت نہیں رکھتی ان فیوضات کو مستقلاً تحمل کرے لہٰذا زمین کے پایے ( Pillars ) امام کے وجود سے قائم ہیں ۔ لو لا الحج ۔۔۔۔ بس امام کے ذریعہ سے زمین پر مادی اور معنوی ہر دو نوع کے فیوض وبرکات پہنچتے ہیں اور اس طرح خدا کے دین اور اس کی کتاب کی حفاظت کی ذمہ داری بھی امام کی ہے۔ کتاب خدا کی حفاظت سے مراد یہ ہے کہ اس کتاب میں کوئی تحریف نہ ہونے پائے کیونکہ یہ کتاب روز قیامت تک کے لیے انسانوں کی راہنمائی کے لیے آئی ہے اور انسانوں کے لیے خدا کی طرف سے یہ فکری اور عملی راہنما ہے اور اس کے بعد اور کوئی کتاب نہیں بھیجی جائے گی۔ ایسی کتاب کہ جو انسانوں کو سعات تک لے کر جائے لازم ہے کہ اس کو ہر قسم کی تحریف سے دور رکھا جائے اور اس ذمہ داری کو خدا کی حجت انجام دیتی ہے۔

امام کے وظائف اور ذمہ داریوں میں گمراہوں کا ہاتھ پکڑ کر ان کو سیدھے راستہ پر لانا اور ان کی تعلیم و تربیت کرنا بھی ہے۔ امام کی دوسری ذمہ داریوں میں سے یہ بھی ہے کہ وہ معاشرے میں دین کو عملی طور پر جاری کرے اور معاشرہ کی سیاسی رہبری کرے۔ تو معلوم ہوا کہ امام کی مختلف ذمہ داریاں ہیں۔ اب اگر ظالموں کے ظلم اور معاشرہ کی ان سے دوری کی وجہ سے امام اپنی ایک ذمہ داری انجام نہیں دے پا رہا تو اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ دوسری ذمہ داریاں انجام نہیں دے رہا بلکہ تمام دوسری ذمہ داریاں ائمہ اپنی تمام توانائیوں کے ساتھ انجام دیتے رہے ہیں۔

اگر معاشرہ امام کو قتل کرنے پر تلا ہوا ہو اور امام خدا کے حکم سے لوگوں کی نظروں سے غائب ہوجاتے ہیں تو ایسی حالت میں وہ عملی طور پر لوگوں کی سیاسی رہبری نہیں کرسکتے لیکن ان کے کندھوں پر موجود دوسری ذمہ داریوں سے وہ ہرگز بری الذمہ نہیں ہوئے اور وہ انسانوں اور خدا کے درمیان، خدا کے فیض کا واسطہ ہیں اور انسانوں کی معنوی طریقہ سے ہدایت ان کے وجود مبارک سے جاری ہے۔

امام کی غیبت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ معاشرہ اور لوگوں سے دور کہیں زندگی گزار رہے ہوں بلکہ وہ لوگوں کے درمیان ہیں اور ان کی مختلف طریقوں سے راہنمائی کرتے رہتے ہیں۔

جہاں کہیں بھی معاشرہ یالوگ اسلامی حکومت کے قیام کے لیے تیار ہوں تو امام کے عمومی نائبین یعنی فقہا اس جامع کی رہبری کو اپنے ہاتھوں میں لے سکتے ہیں۔ جس طرح تیس سال سے فقیہ عادل کی نظارت میں مملکت ایران میں حکومت اسلامی قائم ہے۔ بس نتیجہ یہ نکلا کہ کسی طور بھی امت کی رہبری کو خالی نہیں چھورا گیا بلکہ یہ رہبری اس وقت سے اب تک جاری ہے اور جاری رہے گی۔

شبہ پنجم:

اگر خلافت اہل بیت میں رکھی گئی ہے تو پھر اہل بیت کے تمام افراد اس بات کو قبول کریں جبکہ ہم نے تاریخ میں یہ دیکھا ہے کہ اس اہل بیت کے خاندان کے لوگوں مثلاً زید بن علی ابن حسین نے خلافت کے لیے قیام کیا ہے۔

جواب:

جب ہم نے امامت کے وجود کو عقلی دلائل اور نقلی دلائل سے ثابت کردیا تو پھر اصول یہ ہے کہ جب حق ثابت ہوجاتا ہے تو پھر اگر ایک فرد یا چند افراد اس کی حمایت کریں یا اس کا انکارکریں اس سے حق کی حقانیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا، بلکہ پھر لوگوں پر لازم ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو اس حق کے ساتھ کریں۔

جب علی مع الحق و الحق مع العلی ہو ، لوگوں کو امام علی کی ذات سے تولا جاتا ہو کیونکہ وہ ایمان، ہدایت اور نور کی علامت ہوں'' حبہ ایمان و بغضہ کفر'' ہو تو اس منزل پر ان کی حقانیت طلحہ، زبیر ، معاویہ اور ابوہریرہ جیسے لوگوں کی باتوں سے نہیں پرکھی جاسکتی۔

خاندان اہل بیت میںامامت، حدیث متواتر کے مطابق ثابت ہے ۔پیامبر اکرم (ص) نے فرمایا ''ان خلفائی اثنا عشر خلیفة'' یعنی میرے خاندان سے میرے بارہ خلیفہ ہوں گے۔ یہ بارہ خلیفہ پیامبر اکرم (ص) کی طرح معصوم اور علم الہی کے حامل ہوں گے اور اہل بیت میں شامل دوسرے افراد ان کے حامل نہیں ہیں۔ پھر ممکن ہے کہ اس خاندان کا کوئی فرد ہوا و ہوس اور دنیاوی اغراض میں مبتلاء ہوجائے لیکن تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ اس خاندان کے زیادہ تر افراد متقی، علما اور صالح تھے۔

بس نتیجہ یہ نکلا کہ اگر اس خاندان میں کوئی دنیا طلب فرد پیدا ہوتا ہے تو اس سے اس خاندان میں خلافت کے موجود ہونے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

زید بن علی علیہ الرحمہ کے بارے میں تاریخ گواہی دیتی ہے کہ آپ عالم ، مفسر قرآن، محدث اور عابد و پرہیز گار شخصیت تھے۔ اتفاقاً یہ حدیث '' اِن خلفایی اثنا عشر خلیفة'' جناب زید سے بھی نقل ہوئی ہے۔(۲۴) جناب زید ابن علی کا قیام، امر بالمعروف اور نہی ازمنکر کی خاطر تھا اور ہرگز ان کا قیام لوگوں کو اپنی طرف دعوت دینا نہ تھا اور نہ ہی انہوں نے ائمہ کی امامت کا انکار کیا تھا۔ جناب زید بن علی علیہ الرحمہ کے قیام کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس وقت کے اموی خلیفہ ہشام بن عبد الملک نے امام باقر کی بے عزتی کی تھی اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر جناب زید اپنے قیام میں کامیاب ہوجاتے تو خلافت کو اس کے اصل حقدار تک پہنچا دیتے۔ اسی وجہ سے ائمہ اہل بیت اور اہل تشیع کے علمائے رجال نے جناب زید بن علی کی شخصیت کی تائید کی ہے اور آپ کے قیام کی وجہ امر بہ معروف اور نہی از منکر کو قرار دیا ہے اور جناب زید اور آج کہ فرقہ زیدیہ کے درمیان فرق کے قائل ہیں کیونکہ جناب زید بن علی زیدیہ فرقہ سے کوئی رابطہ اور نسبت نہیں رکھتے تھے۔ مرحوم صدوق نے اپنی کتاب عیون الرضا میں امام علی رضا سے حدیث نقل کی ہے کہ جس میں امام رضا نے جناب زید کے قیام کی تائید کی ہے اور اس بات کی کہ جناب زید امامت کا دعوی کرتے تھے، تردید کی ہے اور جناب زید کو اس طرح کے دعووں سے بلند قرار دیا ہے۔(۲۵)

بہرحال نتیجہ اس مختصر سی بحث کا یہ ہے کہ اگر خاندان اہل بیت سے امامت کی مخالفت میں کوئی کھڑاہوتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ امامت اہل بیت میں نہیں تھی اور اگر ہم اعتراض کرنے والے کے اعتراض کو قبول کرلیتے ہیں تو پھر ہمیں یہ بھی قبول کرنا پڑے گا کہ کیونکہ ابولہب وغیرہ نے رسول خدا (ص)کی مخالفت کی تھی اسی لیے نعوذ باللہ پیامبر (ص) حق پر نہیں تھے۔ اور یہ بھی قبول کرنا پڑے گا کہ جس طرح اہل سنت جناب ابو بکر کی خلافت کو حق تسلیم کرتے ہیں تو چونکہ جناب محمد بن ابی بکر اور قاسم بن محمد بن ابی بکر نے جناب ابوبکر کی خلافت کے مسند پر بیٹھنے کی مخالفت کی تو جناب ابوبکر کی خلافت صحیح نہیں تھی کیونکہ ان کے بیٹے اور پوتے نے ان کی مخالفت کی تھی جبکہ یہ حقیقت ہے کہ اہل سنت اس طرح کی مخالفتوں پر توجہ نہیں دیتے۔

تو ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ لوگوں کو حق پر تولا جاتا ہے نہ حق کو لوگوں کے رویوں پر۔ لوگوں کی حق سے مخالفت حق کو صحیح یا باطل نہیں کرتی۔

و الحمد لله رب العالمین