قرآن کریم کی بہت سی آیات اور ائمۂ معصومین (ع) کی روایات میں ان افراد کی مذمت کی گئی ہے اور لوگوں کو تاکید کی گئی ہے کہ ان کی باتیں سننے سے پرہیز کریں اس لئے کہ یہ افراد دنیوی اوراخروی سعادت کے حصول سے باز رہنے اور گمراہی کا سبب ہوجاتے ہیں۔
جیسا کہ ہم نے اس کے پہلے بیان کیا، قرآن کریم اسلامی معاشرہ میں ایسے انسانوں کی کارستانیوں کا نام ''فتنہ'' رکھتا ہے اور جو لوگ قرآن اور دین کے معارف و حقائق میں تحریف کرنے کے درپے ہوتے ہیں انھیں ایسا فتنہ پرداز سمجھتا ہے جو دینی معارف میں تحریف کر کے لوگوں کو گمراہ کرنے میں شیطان کا ساتھ دیتے ہیں۔ اب ممکن ہے یہ سوال پیش کیا جائے کہ ایسے لوگ باوجودیکہ حق کو جانتے ہیں اور ان اوہام اور جہالتوں سے جو کہ دوسروں سے عاریت میں لئے ہیں، واقف ہیں، تو پھر کیوں اپنی فریب کاریوں کی توجیہ کر کے دوسروں کو گمراہ کرنا چاہتے ہیں؟
دوسری لفظوں میں جو افراد دینی معارف میں تحریف کرتے ہیں اور حقائق دین میں تحریف کر کے لوگوں کی گمراہی کے اسباب فراہم کرتے ہیں، وہ نفسیاتی اور روحی اعتبار سے کون سی مشکل رکھتے ہیں کہ جس کے حل کرنے کے لئے دین خدا سے کھلواڑ کر بیٹھتے ہیں؟ حقیقت میں ''دین میں فتنہ'' جو کہ معارف دین میں تحریف کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے، وہ کہاں سے پیدا ہوتا ہے؟
امیر المومنین حضرت علی ـ اس سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:''إنّمَا بَدْئُ وُقُوْعِ الْفِتَنِ اَهْوَائ تُتَّبَعُ وَ اَحْکَام تُبْتَدَعُ'' 1 جو بات روحی اعتبار سے انسان
(1) نہج البلاغہ ، خطبہ 50 ۔