جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ حدیث ثقلین کے مطابق، قرآن و عترت (اہلبیت) یہ دونوں الٰہی امانتیں موحدین کی ہدایت کے راستے میں ایک دوسرے کی تکمیل کا ذریعہ ہیں کہ ایک سے تمسک کرنے اور دوسرے کو چھوڑنے سے نزول قرآن کا مقصد، جو کہ انسانوں کی ہدایت ہے، پورا نہیں ہوتا۔
حضرات ائمۂ معصومین (ع) وہ چراغ ہیں جو اس الٰہی منبع سے نور اخذ کرتے ہیں اور سعادت کے طلبگار افراد کی راہ زندگی کو روشن کرتے ہیں کیونکہ قرآن اور اس کی حقیقت آپ حضرات ہی کے پاس ہے۔ یہی ذوات مقدسہ ہیں جو متشابہات کو محکمات کی طرف واپس لے آتے ہیں، راہ کو بیراہی و سرگردانی سے جدا کرتے ہیں اور لوگوں کو کمال و سعادت کے راستے کی رہنمائی کرتے ہیں۔ لوگوں کو بھی چاہئے کہ قرآن کے معارف کو فقط آپ ہی حضرات سے حاصل کریں اور ان پر عمل کریں۔
حکمت الٰہی اسی بات کی مقتضی ہے اور سنت الٰہی اسی بات پر قائم ہے کہ لوگ اہلبیت (ع) کے وسیلے سے قرآن کے معارف و علوم حاصل کریں اور ان پر عمل کر کے اپنی دنیوی اور اخروی سعادت حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ لہٰذا اس مقصد کے تحقق کے لئے خداوند متعال نے امامت کا ایک سلسلہ قائم کرکے معارف قرآن سے استفادہ کا راستہ سعادت کے طلبگاروں کے لئے کھلا رکھا ہے۔ اگر چہ دشمن اور دنیا پرست افراد پوری تاریخ میں اس بات کے درپے رہے ہیں کہ لوگوں کے لئے ہدایت الٰہی کے نور کو جو کہ مکتب اہلبیت (ع) میںمجسم نظر آتا ہے، خاموش کردیں۔