مراجع تقلید کے فتوئوں میں اختلاف کا پلورالزم سے کوئی ربط نہیں ہے
جو سوال اس جگہ ذہن میں آتا ہے وہ یہ کہ مذہب شیعہ میں بھی چاہے وہ اعقادی مسائل ہوں یا فقہی احکام،بہت جگہوں پر کئی نظریات پائے جاتے ہیں ۔ ان اختلافات کے رہتے ہوئے کس طرح ممکن ہے کہ ان احکام و عقائد کے ایک مجموعہ کو شیعہ مذہب کی طرف (جو کہ حق ہوں ) نسبت دیا جائے؟ شیعہ علماء اور مراجع تقلید کے فتوئوں میں اختلاف یہ ایک ایسی چیز ہے جس کو سبھی لوگ جانتے ہیں مثلاً ایک مرجع تقلید کا فتویٰ ہے کہ نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں ایک مرتبہ تسبیحات اربعہ کہنا کافی ہے دوسرا مرجع یہ فتویٰ دیتا ہے کہ ۳ مرتبہ کہنا ضروری ہے، یا عالم برزخ کے مسائل سے بعض امورمثلاً پہلی رات مرنے کے بعد کیا سوال وجواب ہوگا اس کے علاوہ دوسرے مسائل جس میں اختلاف واضح ہے جو کہ قیامت سے مربوط ہیں ؛ان کی تفصیلات میں علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون سا نظریہ حق ہے اور کون سا باطل ہے ؟یہ شرعی مسئلہ ہے کہ اعلم کی تقلید کرنا چاہئے، لیکن اعلم کی تشخیص اور پہچان میں لوگوں کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے؛ اور ہر شخص مخصوص آدمی کو اعلم جانتا ہے اور اسی کی تقلید کرتا ہے ۔لیکن بہر حال ایسا نہیں ہے کہ فقط ایک ہی مرجع کے مقلدین جنت میں جائیں گے؛ بلکہ جس نے بھی کسی مجتہد کو واقعی طور پر اعلم سمجھا اور اس کی تقلید کی اس کو نجات ملے گی اور وہ جنت میں جائے گا ؛اس جگہ پر جو شبہ ذہن میں پیدا ہوتا ہے وہ یہ کہ اگرمختلف ادیان کے درمیان بہت سے سیدھے راستوں کو قبول نہ کیا جائے تو کم سے کم شیعہ مذہب کے اندر مختلف سیدھے راستوں کے ہونے کا اقرار کرنا پڑے گا؛ اور مختلف عقائد و احکام کے مجموعہ کو صحیح اور حق پر ہونے کا اقرار کرنا پڑے گا لہذٰا اس طرح سے بھی اس کی انتہا پلورالزم ہی کی طرف ہوگی۔