اسلام کے احکام،حقیقی اور واقعی مصلحتوں اور مفسدوں کے تابع ہیں
جو کچھ ہم اسلام کی تعلیمات سے سمجھتے ہیں اور جس بات کا اعتقاد رکھتے ہیں وہ دینی بحث سے قطع نظر کرتے ہوئے عقلی دلیل کے ذریعہ بھی قابل اثبات ہے، وہ اس طرح کہ اخلاق واحکام اور اوامر و نواہی کے متعلق بھی موجودات اور معدومات پر مشتمل اشیاء اور خبری قضیوں کے مانندصرف ایک ہی حقیقت پائی جاتی ہے اوراس اعتبار سے وہتعددو تکثر کے قابل نہیں ہیں ۔
البتہ بعض ایسی برائیاں یا اچھائیاں ہیں جو کہ قرار دادی اور اعتباری ہیں اور وہ حقیقی اور واقعی بنیاد نہیں رکھتیں لیکن تمام اچھائیاں یا برائیاں ایسی نہیں ہیں ۔ اخلاقی اچھائیاں اور برائیاں جو کہ اسلام میں معتبر ہیں وہ سب کی سب مصالح اور مفاسد کی تابع ہیں جیسے جھوٹ بولنا ا س لئے برا اور ممنوع ہے کہ اس سے لوگوں کا ایک دوسرے سے اعتماد اٹھ جاتاہے اور نتیجہ میں اجتماعی نظام میں خلل پڑ تا ہے اور انسان کے لئے ممکن نہیں ہوتا ہے کہ ایسے ماحول میں زندگی بسر کرے؛ ایک ایسے معاشرہ کو فرض کریں جہاں تمام لوگ جھوٹے ہوں اور عام طور سے جھوٹ بولتے ہوں ایسی جگہ پر تمام کاموں کا شیرازہ بکھر جائے گا اور زندگی کا نظام درہم برہم نظر آئے گا ۔اجتماعی زندگی کی بنیاد ایک دوسرے پر اعتماد سے قائم ہوتی ہے اگر یہ بات طے ہو جائیکہ جھوٹ عام ہو جائے اور سب کے سب جھوٹ بولیں تو آپ چاہے و ہ بیوی ہو یا اولاد، اپنے دوست، اعزا، احباب اور پڑوسی کسی پر بھی بھروسہ نہیں کریں گے اور زندگی ایک دوسرے سے جدا ہو جائے گی اوراسی نا قابل تلافی اجتماعی نقصان کی وجہ سے اسلام نے جھوٹ بولنے سے منع کیا ہے اور جھوٹ کو بہت بڑا گناہ سمجھا ہے اس کے بر خلاف سچ بولنا لوگوں کے اعتمادکا سبب بنتا ہے اور لوگ ایک دوسرے پر بھروسہ کرتے ہیں تا کہ لوگ اس سچ کی وجہ سے اجتماعی زندگی میں ایک دوسرے سے فائدہ حاصل کریں۔