اگر طالب علم اور استاد اسکول یا یونیورسٹی میں ایک دوسرے پر بھروسہ نہ رکھتے ہوں مثلاً شاگرد اگر استاد پر اعتماد نہ رکھتا ہو کہ استاد صحیح کہہ رہے ہیں اور جو کتاب میں لکھا ہے وہ صحیح اور حقیقت ہے تو مدرسے کے تمام درس اور یونیورسٹی کے تمام کلاس اور ان کی کتابیں بے فائدہ ہو جائیں گی لہذاسچ اور جھوٹ کی اچھائی اور برائی، مصلحت یا مفسدہ پرموقوف ہیں اوران پر مترتب ہونے والے مفاسد اور مصالح کے اعتبار اسلام نے سچ بولنے کو اچھا اور جھوٹ بولنے کو برا اور معیو ب جانا ہے۔ اس جگہ پر ایک بات کا بیان کرناضروری ہے کہ اسلام کی نظر میں صرف وہی مصالح اور مفاسد جو کہ مادیات اور دنیاوی چیزوں سے مربوط ہیں ،نہیں ہے بلکہ کچھ ایسے مصالح اور مفاسد بھی پائے جاتے ہیں جو کہ معنوی امور سے مربوط ہیں اور انسان کی اخروی زندگی سے ربط رکھتے ہیں اسلام نے جس اچھائی یا برائی کو بیان کیا ہے اس میں دنیاوی مصالح اور مفاسد کے علاوہ اخروی اور معنوی مصالح ومفاسد کا بھی لحاظ کیا ہے۔
پلورالزم کی بحث اور اس کا خلاصہ
اس حصہ کی بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ دینی معارف چاہے وہ عقائد سے متعلق ہوں یا احکام سے ان کا تعلق ہویاپھر اخلاق کے مسائل ہوںیہ سب کے سب واقعیت کے تابع ہیں ،ان سب میں حقیقت فقط ایک ہے اور دین حق فقط ایک ہی ہے اس میں کثرت اور تعدد ممکن نہیں ہے؛ ہاں احکام اور اخلاق سے متعلق امور میں کبھی کبھی اس بات کو دیکھا گیا ہے کہ حکم بدل جاتا ہے؛ مثلاً سچ بولنا کبھی اچھا ہے اور کبھی سچ بولنا برا اور معیو ب سمجھا جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے موضوع کو پورے قیود و شرائط کے ساتھ نظرمیں نہیں رکھاہے اور ان کو بیان نہیں کیا ہے ورنہ اگر سچ بولنے کو تمام شرطوں اور قیدوں کے ساتھ نظر میں رکھا جائے تو یہ ہمیشہ اچھا ہو گا یا برا ہو گااور کبھی فلسف بھی نہیں بدلے گا۔فلسفی اور معرفت شناسی کے اعتبار سے بھی اگر دیکھیں تو جیسا کہ ہم نے پہلے بھی بیان کیا ہے کہ پلورالزم کا تفکرپیدا ہونے کی وجہ ان تین وجہوں میں سے ایک وجہ ہو سکتی ہےپوزیٹوزم''شکاکیتاورنسبیت'' اگر منطقی پوزیٹیسٹ کی طرح ہم نے الھٰیاتی اور غیر تجربی قضایاجیسے خدا ہے، یا قیامت پائی جاتی ہے، وغیرہ کے متعلق ہم نے کہا کہ اصلاًیہ باتیں بے معنی ہیں