کیا اسلام کردار میں ہمیشہ جاذبہ کی تاکید کرتا ہے؟
جس بات کی جانب توجہ دینا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ اسلام جس جاذبہ کی سیاست کو اپنانے کا حکم دیتا ہے چاہے وہ مسلمانوں سے متعلق ہو یا کفار سے یہ حکم کلیت نہیں رکھتا ہے؛ بلکہ کبھی کبھی یہی دافعہ کا بھی حکم رکھتا ہے اور اس کو اپنانے کا حکم دیتا ہے؛ کبھی کبھی محبت و احسان، روحی رشد و تکامل اور ہدایت کا سبب نہیں بنتے اس کے بر خلاف اس کے مقابل میں ایک دیوار کھڑی کر دیتے کبھی کبھی حیوانی خواہشات اور مادی شہوات کے اثر سے اور دوسرے اجتماعی عوامل یا گھریلو تربیت اور اس جیسے اثرات کی وجہ سے انسان کے اندر ستم گری آوارگی اور درندگی کی عادت پیدا ہو جاتی ہے؛ اور اس حال میں اگر اس کو نہ روکا جائے تو وہ اس بات کا سبب بنتا ہے کہ وہ دھیرے دھیرے اور دن بہ دن برائیوں اور بد بختیوں کی دلدل میں دھنستا جاتا ہے اور اپنی دنیا و آخرت کو تباہ و برباد کر دیتا ہے اس کے ساتھ ساتھ دوسروں کے لئے بھی تکلیف و اذیت اور ان کے حقوق کی بربادی کا سبب بنتا ہے۔
ایسی جگہوں پر خود اپنی اورمعاشرہ کی اصلاح کے لئے اس کو متنبہ کرنا چاہئے تا کہ وہ برائیوں سے باز آ کر اچھائی اور نیکی کے راستے پر وا پس آجائے یعنی اس تنبیہ کے اندر رحمت بھی ہے اور یہ تنبیہ خود اس کو زیادہ گمراہ ہونے سے بھی روکتی ہے او ردوسروں تک اس کی برائی پہونچنے سے ھی مانع ہوتی ہے۔ البتہ ظاہری تنبیہ چاہے مالی اعتبار سے جرمانہ کی شکل میں ہو، چاہے کوڑے کی سزا ہویا قتل یا قیدیا دوسری اور سزائیں ،بہر حال یہ سب انسان کے لئے تکلیف اور زحمت کا سبب ہوتا ہے اور فطری طور پر کوئی بھی اس سے خوش نہیں ہوتا ہے بہر حال اسلام کہتا ہے کہ خاص حالات میں تمھاراسلوک خشونت اور سختی کے ساتھ ہونا چاہئے اور دافعہ رکھنا چاہئے ،کیونکہ ہر جگہ پر جاذبہ مطلوب اور پسندیدہ نہیں ہے ۔