25%

جاتے ہیں جو کہ اس روحانی زندگی کے لئے فائدہ مند یا نقصان دہ ہیں ۔جس طرح جسمانی زندگی کئی مرتبے اوردرجے رکھتی ہے اور اس میں نقص و کمال ، اور شدت وضعف پایا جاتا ہے، روحانی زندگی بھی اسی طرح کئی درجے اور مرتبے رکھتی ہے ؛روحانی زندگی کا سب سے پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان انبیاء کی پہلی دعوت جو ایمان اور توحید سے متعلق ہے اس کو قبول کرے اور اس کو جذب کرسکے ۔ البتہ انبیاء کی اس ہدایت کے اثر اور ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کے بعد انسان دھیرے دھیرے روحانی زندگی کے بلند مرتبہ کو حاصل کر سکتا ہے؛ اسی جگہ پرتزکیہ و تہذیب نفس کی بحث آتی ہے۔

تزکیہ نفس یعنی روح کے کمال کے لئے لازمی جذب اور دفع

نفس کو پاک و صاف کرنے (تزکیہ نفس )کی بحث اصل میں وہیروح سے مربوط جذب و دفعبحث ہے۔ ایک درخت کے لئے جب یہ چاہیں کہ وہ خوب تناور اورپھولے پھلے توضروری ہے کہ وہ مٹی اور ہوا سے مواد کو جذب کرے اور اس کی چھٹائی کی جائے اور مضر نباتی زہروں اور آفتوں کو او سے دور رکھا جائے۔اور یہ دونوں چیزیں یعنی جذب و دفع ضروری ہے ؛انسان کے لئے بھی یہ چیزیں ضروری ہیں یعنی وہ ایسا کام کرے کہ اس کی روح صیقل ہو۔اس کا مقدمہ یہ ہے کہ وہ چیزیں جو انسان کی روح اور زندگی کے لئے ضروری اور مفید ہو ںان کو جذب کرے اور وہ چیزیں جو انسان کی روح کے لئے مضر اور نقصان دہ ہیں اس کو اپنے سے دور کرے ، لہذٰا سب سے پہلاقدم یہ ہے کہ انسان ان چیزوں کو پہچانے اور ان کی معرفت حاصل کرے اور غفلت و جہالت سے باہر آئے؛ انسان کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اس کی روح ایسی ہے کہ( بذکر الله تطمئنّ القلوب ) (۱) خدا وند عالم کے ذکر سے دلوں کو سکون حاصل ہوتا ہے، روح کی غذا خدا کا ذکر اور اس کی یاد ہے، دل کی زندگی اور خدا کی یاد کے درمیان ربط پایا جاتا ہے؛ یہی دل ایسا ہے کہ اگر اس کی حفاظت نہ کی جائے،

____________________

(۱) سورہ رعد: آیہ ۲۸۔