بہر حال وہ اعمال جو کہ اجتماعی تاثیر رکھتے ہیں اور انکے انجام دینے سے لوگوں کے حقوق پر تجاوز ہوتا ہے انکی نسبت اگر انکی تاثیر بلا واسطہ ہوتی ہے تو اس صورت میں دنیا کے تمام عقلاء کہتے ہیں کہ ایک اجتماعی قوت یعنی حکومت تا کہ ان غلط کاموں کو جن کو دوسرے کے حقوق پر تجاوز کہا جاتا ہے، روک سکے ،یہ مطلب اسلام اور دین الہیٰ سے مخصوص نہیں ہے۔ ان موارد کے علاوہ اگر کسی جگہ کوئی عمل سماج کے لئے معنوی ضرر کا باعث ہو تو اسلام نے حکومت کو اجازت دی ہے بلکہ اس کو مکلف کیا ہے کہ اس میں دخل دے اور اس کام کو روکے؛ اور اسلام کا یہ کام ایک بنیادی اور جدا گانہ حیثیت رکھتا ہے بر خلاف دوسرے نظاموں جو کہ ڈموکراسی اورلیبرل نظام پر قائم ہیں جمہوری اور لیبرل نظام حکومت میں مثلاً اگر کوئی نیم عریاں یا نا مناسب لباس پہن کر سڑک پر آتا ہے تو یہ لوگ کہتے ہیں کہ یہ اس انسان کی خاص رفتارہے اور اس کا ذاتی معاملہ ہے اوراس کو کوئی کچھ کہہ نہیں سکتا ، اس میں وہ پوری طرح سے آزاد ہے ؛لیکن اسلام نے اس عمل سے منع کیا ہے اس نے کہا کہ یہ عمل معنوی و تربیتی اعتبار سے تباہ کن اثرات کا حامل ہے ،اگر کوئی شخص ایسے عمل انجام دیتا ہے تو اسلام نے اس کو خطا کار کہا ہے اور اس کے ساتھ مجرم کے عنوان سے سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ۔
جزائی اورکیفری قوانین، اجتماعی نظم قائم کرنے کا سبب
وہ اعمال جو کہ اجتماعی خرابیاں رکھتے ہیں اور دوسروںکے حقوق کی پامالی کا سبب بنتے ہیں ان کو ہر حالت میں روکا جانا چاہئے اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور ظاہر سی بات یہ ہے کہ حکومت ان کاموں کو انجام دینے کے لئے قانون بنانے کی محتاج ہے وہ قوانین جو کہ ایک معاشرہ اور سماج میں ہوتے ہیں ، ا ن کی دو قسم ہے: (۱) مدنی قانون (۲) جزائی قانون