16%

سوال اور جواب

سوال :

اسلام میں جاذبہ اور دافعہ دونوں پائے جاتے ہیں اس سلسلہ میں کوئی بحث نہیں ہے لیکن لفط خشونت کے مفہوم کے بارے میں د و پہلو سے دقت کرنے کی ضرورت ہے ۔پہلے یہ کہ کیا یہ مفہوم ایک دینی اصطلاح ہے اور قرآن و حدیث میں یہ استعمال ہواہے ؟ میری نگاہ میں ایسا نہیں ہے ؛کیونکہ قرآن میں مطلق طور سے یہ لفظ استعمال نہیں ہوا ہے اور روایات میں بھی تقریباًیہ لفظ نہیں آیا ہے یعنی بہت ہی کم استعمال ہوا ہے خلاصہ یہ کہ ایسا نہیں ہے کہ قرآن و روایات کے الفاظ میں خشونت کو فضیلت کے طور پر پیش کیا گیا ہو، فارسی زبان میں بھی کلمہ خشونت اچھی نظرسے نہیں دیکھا جاتا؛اس کے مساوی جو لفظ استعمال ہوتاہے وہ بے رحمی کاہے اور یہ قاطعیت سے جدا ہے قاطعیت(قانون کی سخت پاندی) لفظ ایک اچھا عنوان رکھتا ہے لہذاخشونت کو اس کے مترادف نہیں سمجھنا چاہئے۔ ایک فوجی افسر ممکن ہے قاطع ہو اور کبھی ممکن ہے کہ بہت ہی خشن (درشت)ہو اور یہ دونوں لفظ ایک نہیں ہیں ،ممکن ہے انسان ایک جذباتی کام مثلاً چومنے کو بھی خشونت کے ساتھ انجام دے۔

دوسرا نکتہ جو لفظ خشونت سے متعلق ہے وہ یہ کہ فرضاًہم اس بات کو قبول کر بھی لیں کہ یہ اصطلاح قرآن و روایات اور اسلامی الفاظ میں استعمال ہوئی ہے اور اس کو بھی قبول کر لیں کہ خشونت کا مفہوم قاطع کے مترادف ہے اور ایک اچھا پہلو بھی رکھتا ہے لیکن حالات اور مسائل کو دیکھتے ہوئے عقل و نقل دونوں کے اعتبار سے اس لفظ کو استعمال کرنا صحیح نہیں ہے؛ لہذٰا ہم کو اس کے عوض دوسرے الفاظ کو استعمال کرنا چاہئے؛ عقلی لحاظ سے اس بنا پر کہ عقل یہ کہتی ہے کہ جس سماج اور ماحول میں آپ گفتگو اور کلام کر رہے ہیں وہاں پر خشونت کے معنی اچھے نہیں سمجھے جاتے ہیں اور اس سے بے رحمی کے معنی سمجھے جاتے ہیں ؛ اس معنی کو یہاں استعمال کرکے دافعہ کو بلا وجہ نہیں لانا چاہئے ؛جب کہ دوسرے لفظ کو ہم اسی معانی کے لئے استعمال کر سکتے ہیں اور اس طرح آسانی سے اس مشکل کو حل کر سکتے ہیں ۔