8%

ے اوروہ شاہ کی حکومت کو قبول نہیں کرتے تھے نیز بائیں بازو اور مارکس ازم کی طرف بھی ان کا رجحان نہیں تھا ایک گروہنہضت آزادیبھی تھااس گروہ میں چند نوجوان لڑکے تھے جنھوں نے اکٹھاہو کر ایک تنظیم بنا لی تھی اور دھیرے دھیرے اس تنظیم نے تحریک آزادی کی شکل اختیار کر لی تھی اس تنطیم کی بنیاد ڈالنے والے لوگوں میں انجینئر بازرگان اور ڈاکٹر ید ا... سحابی کا نام لیا جا سکتا ہے ،تہران یونیورسٹی کے شعبہ فنّی کی مسجد کی بنیاد ڈالنے والے یہی مہندس بازرگان تھے، اسی طرح آپ کئی رسالوں کو مختلف شکل میں چھاپتے تھے ان میں ایک رسالہ''گنج شایگاں''تھا ،تحریک آزادی والے بھی مجاہدین خلق کی طرح اسلام سے ربط رکھتے تھے نمازی اور روزہ دار بلکہ بعض عابدشب زندہ دار بھی تھے، اگرچہ تحریک آزادی والے بھی مجاہدین خلق کی طرح راستے سے بھٹک گئے اورخود کو سیاسی حیثیت سے محفوظ رکھنے کے لئے محاذملّی کے ان ممبران کے عنوان سے پیش کیا جو کہ سیاسی دانشوروں کے درمیان دوسروں سے بہتر تصوّر کئے جاتے تھے، اور ویسا ہی کام کرنے لگے سیاسی اعتبار سے ملک کی یہ حالت اس وقت، انقلاب کی کامیابی سے پہلے تھی ۔

سیاسی تغیراورانقلاب کے لئے امام خمینی کی حکمت عملی

ان حالات میں امام خمینی نے فہم و فراست اور سیاسی بصیرت کے ساتھ جو کہ شروع سے آپ رکھتے تھے یہ محسوس کیا کہ یہ سیاسی کارنامے جو دانشوروں کے مختلف گروہوں کی طرف سے انجام دئیے جارہے ہیں اگرنتیجہ کو پہونچ جائیں تو بھی اس سے اسلام کو کوئی فائدہ پہونچنے والا نہیں ہے حتیّٰ جو لوگ اسلام کے نام پر جو کچھ کررہے ہیں اس سے بھی کچھ فائدہ ہونے والانہیں ہے، صرف ایک راستہ جو امام خمینی کی نظر میں فائدہ مند تھا اور اس کا ہونا ضروری تھا وہ یہ کہ عام مسلمانوں کو میدان میں لایا جائے امام خمینی کا یہ عقیدہ تھا کہ یہ جماعتیں اور تنظیمیں ایک اسلامی انقلاب( جو کہ مضبوطی کے ساتھ تمام شعبوں میں حاکم ہو اور حکومت اسلامی کی شکل میں ہو ) نہیں لاسکتی ہیں ، اگرچہ امام خمینی کی تھیوری اس زمانے میں قابل قبول نہیں تھی اور آج بھی نہیں ہے وہ لوگ اس بات کے معتقد تھے کہ جہاں بھی جس صورت میں سیاسی تحریک اور فعّالیت انجام پائے، اس کا نتیجہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ کسی گروہ یا تنظیم کی شکل میں کسی خاص رابطہ اور قاعدہ کے ساتھ انجام پائے اسکے بر خلاف ایسی تحریک جو عمومی طور سے ہو اور اس میں سب کے سب لوگ دخالت رکھتے ہوں