8%

پلورالزم کی پیدائش میں اجتماعی عوامل کا دخل

دوسرا خاص سبب جولوگوں کے ذہن میں دینی پلورالزم کی فکر کے پیدا ہونے اور اس کی تقویت کا سبب ہے حقیقت میں وہ ایک اجتماعی اور کلی سبب ہے اس کی وضاحت کچھ اس طرح ہے :

ہم پوری تاریخ میں بہت سی جنگوں کو جو کہ گھروں کی بربادی اور اور ان کے جلنے کا سبب بنتی ہیں اکثردیکھا کرتے ہیں جن کا اصل سبب مذہب اور دین ہے اور انسان فقط دین اور فرقے کے اختلاف کی وجہ سے ایک دوسرے سے لڑتا اور جھگڑتا ہے اور قتل وغارت گری کرتا ہے اس کا واضح اور آشکار نمونہ صلیبی جنگ ہے؛ اس کے دوران ہزاروں مسلمان اور عیسائی مارے گئے اور کتنی بربادی ہوئی کس قدر ثروت اور جائیداد تباہ و برباد ہوئی اور بہت سی قوت و طاقت اس جنگ کی وجہ سے ضائع ہوگئی بہت سے امکانات جو کہ انسان کی آبادی اور رفاہ کے لئے استعمال ہو سکتے تھے وہ نیست و نابود ہو گئے ،آج بھی ایک ترقی پذیر ملک اور دنیاوی تعبیر میں ہم لوگ جس کو تمدن یافتہ ملک سمجھتے ہیں انگلستان ہے لیکن وہاں پر بھی عیسائیوں کے دو فرقے کاتھولیک اور پروٹسٹوں کے درمیان خونریزجھڑپ ہوا کرتی ہے، یا ہندوستان اور پاکستان اور افریقا کے بعض ممالک ہی میں دیکھ لیجئے اکیسویں صدی کے آغاز میں آج بھی فرقوں اور مذہبوں میں اکثر جنگیں اور قتل و غارت گری ہوتی رہتی ہے اور یہ سب مذہب و فرقہ کی وجہ سے ہے۔ اگر ہم اس مسئلہ کو حل کرنا چاہیں تو بہت ہی آسانی کے ساتھ یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے وہ اس طرح کہ ہم اس بات کا اعتقاد رکھیں کہ اسلام بھی اچھا دین ہے اور مسیحی مذہب بھی اچھا ہے پروٹسٹ اور کاتھولیک دونوں فرقے حق پر ہیں ، شیعہ اور سنّی دونوں فرقے صحیح راستے پر ہیں ؛اس طرح سے لڑائی اور جھگڑے کرنے والے انسانی سماج سے خود بہ خود ختم ہو جائیں گے ۔سچ مچ کیا یہ مناسب نہیں ہے آج کا انسان جو کہ تمدن یافتہ ہے وہ دشمنی اور جنگ و جدال نیز قہر و غضب کو بر طرف کر دے اور اس کے بجائے صلح وصفائی ' بھائی چارہ ' میل و محبت کے ساتھ'' ڈگما تزم' اور یقین پرستی کو دور کر کے تمام مذاہب اور ادیان کا احترام کرے اور دوسرے کے اعتقاد اور نظریہ کو اپنے عقیدہ اور نظریہ کی طرح حق پر جانے ؟دشمنی اور جنگ جاہل اور غیر متمدن افراد کا کام ہے آج کا انسان متمدن اور سمجھدار ہے ۔