8%

پیش گفتار

حوزئہ علمیہ اوریونیورسٹی کے درمیان ارتباط ایک مبارک شئے ہے جسکے نتیجے بہت ہی اچھے سامنے آرہے ہیں اسکے بر خلاف معاشرہ پراثرانداز ہونے والے ان دو رکنوں میں جدائی بہت ہی بڑے نقصان کا سبب بنتی ہے ۔اس طرف توّجہ دینے اور اس نیک ارتباط کو بر قرار رکھنے کے لئے انقلاب اسلامی سے پہلے حوزئہ علمیہ اور یونیورسٹی دونوں طرف کے بہت سے لوگ اس کام میں فعّال تھے اور اس مسئلہ کی اہمیت کو محسوس کرتے تھے اور اسکی اسٹراٹجی اہمیت کی وجہ سے ہمیشہ یہ کوشش کرتے تھے کہ یہ وسیع اور مستحکم رابطہ برقرار رہے ۔

مختلف بے نظیر شخصیات جیسے شہید بہشتی؛شہید مطّہری؛شہید مفتّح؛ڈاکٹر باہنر اور دوسرے دور اندیش عالموں کا یونیورسٹی میں آنا انکی روشن بینی اور تیز نظری کی علامت اوراس ارتباط کو بڑھانے میں اہم قدم تھا،یونیورسٹیوں کے ایسے متعدداساتید کی بھی نشان دہی کی جاسکتی ہے جن لوگوں نے اس ارتباط کی ضرورت اور اہمیت پر اعتقاد رکھتے ہوئے اس ضمن میں بہت کوشش کی ہے یہ کوششیں انقلاب اسلامی کی کامیابی اوریونیورسٹی اور حوزہ کے درمیان اتحادکے نعرے کے بعدجوکہ انقلاب اسلامی کے معمار بزرگ حضرت امام خمینی کی طرف سے دیا گیا تھا بہت وسیع ہو گئیں، اگر چہ اس وقت بھی اس راستے میں بہت سی رکاوٹیں اور مشکلات ہیں نیز منزل مقصود تک پہونچنے کے لئے راستے میں بہت سے مشکلات پائے جاتے ہیں لہٰذا پہلے ان کو دور کیا جائے لیکن پھر بھی چشم دید تجربے اس بات کو بتاتے ہیں کہ ان دونوں صنفوںیعنی حوزہ اور یونیورسٹی کے درمیان نزدیکی اور رابطہ جتنا زیادہ ہوگا]کیونکہ یہ دونوں محکم قلعے ہیں [ اور جس قدر دونوں صنف کے افراد کے خیال اور تفکّر نتیجے تک پہونچانے والے ہونگے وہ قوم کے لئے مفید ہوگا اور معاشرہ انکے فوائدسے مستفید ہوگا اسکے بر خلاف ان کے درمیان جدائی خود انکے اور معاشرہ دونوں کیلئے نقصان دہ ہوگی ۔