بلکہ ہر دین میں حقیقت کا کچھ حصہ پایا جاتاہے لہٰذایہ لازم نہیں ہے کہ آپ صرف ایک خاص دین کا اعتقاد رکھیں بلکہ ممکن ہے کہ آپ یہودی بھی رہیں ، مسیحی بھی، مسلمان بھی یا کسی اورمذہب سے بھی تعلق رکھتے ہوںاس طرح کہ جس دین میں جو اچھا عنصر پایا جاتا ہو آپ اس کو اختیار کر لیں ؛یہاں تک کی بودھ مذہب جو کہ خدا کے وجود کا منکر ہے اس کے اندر بھی بعض اچھے عناصرہیں جیسے سکون روح، یکسوئی ، دنیا سے دوری وغیرہ آپ ان کو اختیار کر لیںالبتہ یہ بیان ایک افراطی رجحان رکھتا ہے جو یہ کہتا ہے کہ تمام ادیان میں حق وبا طل کی آمیزش اس حد تک موجود ہے کہ ایک کو دوسرے سے بہتر نہیں کہا جا سکتا ؛بلکہ وہ سب ایک ہی جیسے ہیں ان میں ایک معتدل نظریہ یہ ہے کہ اگر چہ حق و باطل کاوجود تمام ادیان میں ہے لیکن حق و باطل کی مقدار ایک طرح نہیں ہے یعنی نسبی اعتبا ر سے تفاوت ہے جس کے ذریعہ ایک کو دوسرے پر فوقیت دی جا سکتی ہے، لیکن پھر بھی مطلق فوقیت نہیں پائی جاتی بلکہ تمام ادیان میں اچھائیاں اور برائیاں دوونوں ہی پائی جاتی ہیں ۔
دینی پلورالزم کی پہلی تفسیر کا تجزیہ
اس بیان کے جواب میں سب سے پہلے ہم یہ کہیں گے کہ ہر انصاف پسند شخص اگر تھوڑی سی بھی عقل اور ادیان سے متعلق سطحی معلومات بھی رکھتا ہوگا تو وہ اس بات کی تصدیق کرے گا کہ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ادیان کے درمیان ایک دوسرے پر کوئی ترجیح نہیں ہے اور سب کے سب برابر ہیں ،بعض دین ایسے بھی ہیں کہ ان کے اندر ایسی باتیں پائی جاتی ہیں کہ زبان و قلم ان کے بیان کرنے اور لکھنے سے شرم محسوس کرتے ہیں کیا سچ مچ جانور ،گائے اور کتّے کو پوجنا خدا پرستی کے برابر ہو سکتا ہے ؟ کیا بت پرستوں کا وہ یقین و اعتقاد جو کہ ہندوستان کے بعض لوگوں میں ہے اور وہ آلہ تناسل کی پرستش کرتے ہیں اور اس کے سامنے زمین پر جھکتے ہیں اور بہت سے لا ولد افراد اپنے مرض کے علاج کے لئے اس پر پانی ڈال کر تبرکاًپیتے یا استعمال کرتے ہیں اس کا مقائسہ مذہب اسلام (جو کہ نجات دینے والا ہے اور اس کے اندر تمام کمالات اور لا تعداد اچھائییاں پائی جاتی ہیں اور جو خدا ئے وحدہ لا شریک کی عبادت کا حکم دیتا ہے ) سے کیا جا سکتا ہے اور ان دونوں مذہب کو ایک فہرست میں شمار کیا جا سکتا ہے ؟