8%

اس کے ملائکہ ،رسول اور ان کتابوں پر جو وہ لیکر آئے ان پر ایمان رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم رسولوں کے درمیان فرق کے قائل نہیں ہیں یعنی ہم کسی بھی پیامبر کی تکذیب

نہیں کرتے اور نہ ہی اس کا حق رکھتے ہیں اور سب کو واجب الا طاعت سمجھتے ہیں البتہ اگر موسیٰ، عیسیٰ بھی اس زمانے میں ہوتے تو وہ بھی شریعت محمدمصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پرعمل کرتے۔

دین اختیار کرنے میں ہماری ذمہ داری اور دوسرے ادیان کے پیروکاروں کا حکم

لہذٰا اس زمانے میں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم قرآن ،پیغمبر اور ائمہ علیھم السلام کے احکام پر عمل کریں اور اگر اس کے علاوہ کسی اور کے حکم پر عمل کریں گے تو وہ قبول نہیں ہوگا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ دین حقیقی طور پر پچھلے ادیان سے جدا ہے اگر چہ ادیان بعض احکام میں جدا ہیں اور اختلاف رکھتے ہیں لیکن کلی اصول اوربہت سے احکام میں سارے ادیان ایک دوسرے سے مشابہت رکھتے ہیں اوروہ سب اسلام میں ہیں ،لہذٰا اگر کوئی شخص حق کو پہچاننے یا مشخص و معین کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو وہ مستضعف ہے اور اس نے جتنا پہچانا ہے اتنا ہی اس کو عمل کرنا چاہئے ،اسی پر اس کو ثواب ملے گا لیکن اگر کسی نے کسی زمانے میں حق کو پہچانا اور اس کے باوجود اس کی مخالفت کی اور دشمنی اختیار کی تو ہمیشہ ہمیشہ جہنم کی آگ میں جلے گا، یہ مطلب دعائے کمیل کے اس فقرے سے بھی ظاہر ہوتا ہے، مولا علی فرماتے ہیں :اقسمت ان تملاهامن الکافرین من الجنة والناس اجمعین وان تخلدفیها المعاندین ائے خدا ! تو نے قسم کھا کر کہا ہے کہ اس جہنم کو تمام جن و انس کہ جو کافر ہوںگے بھر دوں گا اور وہ لوگ جو تیرے دین سے دشمنی رکھتے ہیں