حضرت امام علی ـ نہج البلاغہ میںایک طرف قرآن کے اوصاف کے متعلق ارشاد فرماتے ہیں کہ: یہ کتاب، کتاب ناطق ہے، خود بولتی ہے، بولنے سے تھکتی نہیں، اپنی بات اور اپنا مطلب خود واضح طور سے بیان کرتی ہے۔اور دوسری طرف، ارشاد فرماتے ہیں : یہ قرآن ناطق نہیں ہے، اسے قوت نطق و گویائی دینی چاہئے اور میں ہی ہوں جو اس قرآن کو تمھارے لئے گویا کرتا ہوں ۔ اور بعض عبارتوں میں اس طرح آیا ہے : ''قرآن، صَامِت نَاطِق'' قرآن صامت بھی ہے اور ناطق بھی ۔ اس بات کے صحیح معنی کیا ہیں؟
معلوم ہوتا ہے کہ یہ تعبیر اس آسمانی کتاب سے متعلق دو مختلف نظریوں کو بیان کر رہی ہے کہ ایک نظر یہ کی رو سے قرآن ایک مقدس کتاب ہے جو کہ خاموش ہے اور ایک گوشہ میں رکھی ہوئی ہے، نہ وہ کسی سے بولتی ہے اور نہ کوئی اس سے ارتباط رکھتا ہے، اور
(1)نہج البلاغہ، خطبہ 147، یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ اس کتاب میں نہج البلاغہ سے دیئے گئے تمام حوالے ، نہج البلاغۂ فیض الاسلام کی بنیاد پر ہیں۔