کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگر چہ یہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں مبتلا تھے''۔
اس آیۂ مبارکہ اور اس کے مشابہ دوسری آیتوںمیں پہلا فریضہ یعنی آیات کی تلاوت و قرائت''یَتْلُوْا'' کی تعبیر سے بیان ہوا ہے اور دوسرے فریضہ یعنی احکام و مطالب کی تفسیر و توضیح کے لئے ''تعلیم'' کی تعبیر سے استفادہ کیا گیاہے۔
خلاصہ یہ کہ وحی کی توضیح،احکام الٰہی کی تفصیل اور قرآن کریم کی تفسیر مذکورہ معنی میںایسا کام ہے کہ جس کی صلاحیت پیغمبر اور ائمۂ معصومین (ع) کے علاوہ کوئی نہیں رکھتا اس لئے کہ صرف یہی ہستیاں ہیں جو خدا داد علم کے ذریعے الٰہی علوم و معارف سے آشنا ہیں۔
اب مذکورہ نکتہ پر توجہ کرنے سے مفسرین کا فریضہ بخوبی واضح ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ بیان ہوچکا ہے وحی کی توضیح، احکام کی تفصیل اور آیات قرآن کی تفسیر کا عہدہ او راس کی صلاحیت دراصل پیغمبر کو حاصل ہے اور آنحضرت نے اپنی مبارک زندگی کے زمانہ میں جہاں تک ممکن تھا لوگوں کو قرآن کے معارف سے آشنا کیا۔ اس زمانہ میں مفسرین کا بھی فریضہ ہے کہ ان روایات و احادیث کی طرف رجوع کریں جو صحیح اسناد کے ساتھ پیغمبر سے اس سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں اور ان کی بنیاد پر مربوط آیتوں پر توجہ اور غور و فکر کریں اور اپنی فکر و نظر کو پیغمبر کی توضیح و تفسیر کے حدود ہی کے اندر رکھیں۔ اور جہاں آنحضرت نے اس ثقل اکبر اور قرآن مستحکم کی تفسیر و توضیح نہ کی ہو وہاں ثقل اصغر یعنی اہلبیت اور ائمۂ معصومین (ع) سے تمسک کریں۔