33%

نہیں کرتے۔ بہتر ہوگا کہ شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص80 میں ملاحظہ فرمائیے کہ ابوبکر نے مسجد میں بر سر منبر امیرالمومنین علیہ السلام پر طعن کرتے ہوئے کہا :

"إنماهوثعالةشهيده‏ ذنبه،مربّلكلفتنة،هوالذييقول: كروهاجذعةبعدماهرمت،يستعينونبالضعفة،ويستنصرونبالنساء،كأمطحالأحبأهله االيهاالبغي"

یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ وہ (علی علیہ السلام) ایک لومڑی ہے۔ جس کی گواہ اس کی دم ہے۔ طرح طرح کے نکتے اٹھاتا ہے بڑے بڑے فتنوں کو گھٹا کے بیان کرتا ہے اور لوگوں کو فتنہ و فساد کی ترغیب دیتا ہے۔ ضعیوں سے کمک مانگتا ہے۔ اور عورتوں سے امداد حاصل کرتا ہے وہ ام طحال کے مانند ہے(ابن ابی الحدید تشریح کرتے ہیں کہ یہ زنانہ جاہلیت میں ایک زنا کار عورت تھی) جس سے اس کے گھر والے زنا کرنے کے شائق تھے) ( لیکن دوسری تاریخوں میں اس عبارت کے ساتھ ہے کہ ابوبکر نے کہا "إنماهی ثعالةشهيدهاذنبها "

اب ذرا آپ حضرات موازنہ کیجئے کہ خلیفہ ابوبکر نے حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کی شان میں جو فحش باتیں کہیں، ان سے اور اس طعن و اعتقاد سے کتنا تفاوت ہے جو ایک شیعہ ان لوگوں کے لیے کرے۔

پس اگر کسی صحابی کو دشنامدینا باعث کفر ہے تو ابوبکر ان کی بیٹی عائشہ معاویہ اور ان کے پیروئوں کو سب سے پہلے کافر ہونا چاہیئے اور اگر سبب کفر نہیں ہے تو آپ اسی بنا پر شیعوں کو بھی کافر نہیں کہہ سکتے۔

آپ کےبڑے بڑے فقہاء اور خلفاء کے فتاوی اور احکام کے مطابق دشنام دینے والے کافر اور واجب القتل نہیں ہوتے۔ جیسا کہ امام احمد حنبل نے مسند جلد سوم میں، ابن سعد کاتب نے کتاب طبقات جزء پنجم ص670 میں اور قاضی عیاض نے شفاء جز چہارم باب اول میں نقل کیا ہے کہ خلیفہ عمر ابن عبدالعزیز کے عامل نے کوفے سے ان کو لکھا کہ ایک شخص نے خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب کو سب کیا ہے اور گالی دی ہے، اجازت دیجئے کہ ہم اس کو قتل کردیں۔ انہوں نے جواب میں لکھا کسی مسلمان کو سب و شتم کرنے کی وجہ سے ایک مسلمان کا خون مباح نہیں ہوتا، سوا اس کے کہ کوئی شخص رسول خدا(ص) کو دشنام دے ۔ ان اقوال کے علاوہ خود آپ کے اکابر علماء جیسے ابوالحسن اشعری اور ان کے پیروئوں کے عقائد یہ ہیں کہ اگر کوئی شخص دل سے مومن ہو اور کفر کا اظہار کرے ( مثلا یہودیت اور نصرانیت وغیرہ) یا رسول اللہ (ص) سے جنگ کرنے اٹھے یا خدا و رسول(ص) کو بلاعذر سخت گالی دے۔ تب بھی وہ کافر نہیں ہوتا اور اس پر کفر کا جاری نہیں کیا جاسکتا، اس لیےکہ ایمان عقیدہ قلبی ہے اور چونکہ کوئی کسی کے قلب سے واقف نہیں ہے لہذا یہ نہیں جان سکتا کہ کفر کا اظہار دل سے تھا یا فقط ظاہری حیثیت سے اور ان مراتب کو دیگر علماء اشعری نے بھی اپنی کتابوں میں درج کیا ہے۔ خصوصا ابن حزم اندلسی نے کتاب الفضل جز چہارم ص204 و ص406 میں ان عقائد کو تفصیل سے نقل کیا ہے۔

پس ایسی صورت میں آپ حضرات موحد، پاک نفس، مطیع خدا و رسول(ص) اور شرع انور کے تمام واجب و مستحب احکام پر عمل کرنے والے شیعوں پر کفر کا حکم لگانے کا کیا حق رکھتے ہیں؟ فرض کر لیجئے کہ ( جیسا آپ کا خیال ہے) کوئی شیعہ بعض