11%

بے نیازی، قرآن کی پیروی میں

حضرت علی ـ مذکورہ خطبہ میں قرآن کریم کا تعارف شاخص و رہنما کے عنوان سے کراتے ہیں اور فرماتے ہیں: یقین رکھو! قرآن ایسا ناصح ہے جو کہ اپنے پیرووں کے ارشاد میں خیانت نہیں کرتا اور ایسا ہادی ہے جو گمراہ نہیں کرتا اور ایسا بولنے والا ہے جو اپنی بات میں جھوٹ نہیں بولتا، کوئی شخص اس قرآن کے ساتھ نہیں بیٹھا اور کسی نے اس میں تدبر و تفکر نہیں کیا مگر یہ کہ جب اس کے پاس سے اٹھا تو اس کی ہدایت و رستگاری میں اضافہ ہی ہوا اور اس کی گمراہی ختم ہوگئی، پھر حضرت فرماتے ہیں:

''وَ اعْلَمُوا أَنَّهُ لَیسَ عَلٰی اَحَدٍ بَعدَ الْقُرآنِ مِن فَاقَةٍ وَ لَا لِأَحَدٍ قَبلَ الْقُرآنِ مِن غِنًی فَاسْتَشفُوهُ مِن اَدْوَائِکُم وَ اسْتَعِینُوا بِهِ عَلٰی لَأوَائِکُم فَإنّ فِیهِ شِفَائً مِن أَکْبَرِ الدَّائِ وَ هُوَ الْکُفْرُ وَ النِّفَاقُ وَ الْغَیُّ وَ الضَّلاَلُ'' 1

قرآن، اور معاشرہ پر اس کی حاکمیت ہونے کی صورت میں کسی کے لئے کوئی ایسی نیاز و احتیاج باقی نہیں رہ جاتی جو کہ پوری نہ ہو، اس لئے کہ قرآن کریم موحدین کی زندگی کے لئے سب سے زیادہ بلند و عالی، الٰہی دستور العمل ہے اور خداوند متعال نے اس آسمانی کتاب کے پیرؤوں کی دنیا و آخرت کی عزت و کامیابی کی ضمانت لی ہے۔ اس بنا پر جب ہمارا اسلامی معاشرہ قرآن کے حیات بخش احکام و فرامین پر عمل کرے او راس کے وعدوں کی سچائی پر ایمان رکھتے ہوئے اس کو اپنے عمل کا نمونہ قراردے، تو قرآن معاشرہ کی تمام فردی، اجتماعی، مادی اور معنوی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے اور اسلامی معاشرہ کو ہر چیز اور ہر شخص سے بے نیاز کردیتا ہے۔

اسی کے مقابل، حضرت علی ـ قرآن سے جدائی کے خطرے کو بھی گوش زد فرماتے ہیں اور اس نظریہ کو رد کرتے ہیں کہ اس الٰہی ثقل اکبر، قرآن کے بغیر معاشرہ کی فردی و اجتماعی مشکلات اور ضرورتوں کو برطرف کیا جاسکتا ہے، حضرت علی ارشاد فرماتے ہیں:''وَ لَا لِأَحَدٍ قَبلَ الْقُرآنِ مِن غِنًی'' کوئی بھی شخص قرآن کے بغیر بے نیاز نہیں

(1)نہج البلاغہ، خطبہ 175۔