سے ذرا سا بھی خوش نہ ہوگا اور جہاں آیات قرآن اس کی نفسانی خواہشات کے موافق ہوں گی وہ کشادہ روئی کے ساتھ ان کا استقبال کرے گا۔
البتہ یہ تمام فعل و انفعالات اور تاثیر و تاثرات اس کے اندر ہی اندر مخفی طور پر انجام پائیں گے لیکن اس کے آثار انسان کے اقوال و افعال میں ظاہر ہوں گے، لہٰذا عقل اس بات کو واجب و لازم قرار دیتی ہے کہ قرآن کی طرف رجوع سے پہلے، انسان اپنے ذہن کو ہر طرح کی خود پسندی اور کج فکری سے پاک و صاف کر لے اور اپنے تمام نفسانی خواہشات اور ہوا و ہوس سے منھ موڑ لے تاکہ ایک خدا پسند اور خدا پرست روح کے ساتھ قرآنی مکتب میں قدم رکھے، اس صورت میں انسان زانوئے ادب تہ کرتا ہے اور نہایت شوق و رغبت کے ساتھ الٰہی معارف کو قبول کرتا ہے۔
واضح ہے کہ نفسانی خواہشات سے ہاتھ اٹھانا او رالٰہی احکام اور قرآنی معارف کے سامنے سراپا تسلیم ہونا نہ صرف ایک آسان کام نہیں ہے، بلکہ جو لوگ عبودیت و بندگی کی قوی روح کے حامل نہیں ہیں ان کے لئے نفسانی خواہشات سے چشم پوشی کرنا نہایت ہی مشکل کام ہے، اسی وجہ سے اسے جہاد اکبر بھی کہا جاتا ہے۔