11%

دوسری طرف قرآن کریم میں استعمال شدہ الفاظ کے حقیقی و لغوی معنیٰ کی اطلاع، ان مسائل میں سے ہے کہ جن کے بغیر قرآن کا صحیح سمجھنا اوراس کی درست تفسیر کرنا ممکن نہیںہے۔

ممکن ہے کسی معنی کی تبدیلی سے غفلت جو کبھی کسی زبان میں مرور زمانہ سے واقع ہوتی ہے، غلطی اور بدفہمی کا باعث بن جائے۔

مثال کے طور پر لفظ ''تقیہ'' کا معنی و مفہوم سب کے لئے واضح ہے۔ عام طور پر اس لفظ سے یہ مراد لی جاتی ہے کہ کوئی شخص اپنا عقیدہ و مذہب مخفی رکھے اور ایسا ظاہر کرے کہ اس کا مخاطب اس کے حقیقی عقیدہ و مذہب سے آگاہ نہ ہو، اگرچہ تقیہ کے لغوی معنی پرہیزگاری کے ہیں اور قرآن و نہج البلاغہ میں ان ہی معنی میں استعمال ہوا ہے۔ولو لفظ تقیہ قرآن میں نہیں ہے لیکن لفظ ''تقاة'' جو کہ تقیہ اور تقویٰ کے مترادف ہے، آیۂ(اِتَّقُواْ اللّٰهَ حَقَّ تُقَاتِهِ) 1 میں آیا ہے۔

قرآن کریم اور کلامی محاسن

اگر چہ قرآن کریم، جیسا کہ خود کہتا ہے، واضح اور آشکار زبان میں نازل ہوا ہے اور ہر شخص اپنی سمجھ او رصلاحیت کے مطابق اس آسمانی کتاب سے مستفید ہوسکتا ہے۔ لیکن اس نکتہ کی طرف توجہ ضروری ہے کہ قرآن سب سے زیادہ فصیح و بلیغ اور کلام و بیان کے تمام محاسن (خوبیوں) سے آراستہ ہے اور واضح ہے کہ مذکورہ نکات کی طرف توجہ دینا بھی قرآن کریم سے صحیح استفادہ کے بنیادی شرائط میں سے ہے۔

(1)سورۂ آل عمران، آیت 102 ۔