22%

دین کی حقیقت حاصل نہ ہونے کا شبہہ

''حقیقت دین حاصل نہ ہونے'' کا شبہہ نہایت شیطانی مقاصد کے تحت پیش کیا گیا ہے اور اس کے نتائج بہت ہی تباہ کن ہیں کہ جن کے بیان کرنے کی گنجائش فی الحا ل نہیں ہے، یہاں پر ہم اس کی وضاحت اور اس کے بعض پوشیدہ پہلوؤ ں اور لوازم کو صریح طور پر بیان کر کے فیصلہ خود آپ حضرات کے حوالے کرتے ہیں۔

چونکہ ہماری بحث خصوصاً قرآن کے بارے میں ہے لہٰذا مذکورہ شبہہ کے متعلق خصوصاً قرآن کے بارے میں بحث و تحقیق کریں گے۔ یہ شبہہ قرآن فہمی کے بارے میں طرح طرح کی شکلوں اور مختلف سطحوں میں پیش کیا جاتا ہے۔ کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم کی بعض آیتوں کی مختلف تفسیریں ہیں اور مفسرین ان کی تفسیر و توضیح میں اتفاق رائے نہیں رکھتے اور ہم جس قدر بھی صحیح نظریہ حاصل کرنے کے لئے تحقیق کریں، جو کہ قرآن کے حقیقی مطلب کو بیان کرنے والی ہو، آخر کار صرف ایک مفسر کی تفسیر اور نظریہ ہی کو قبول کریں گے کہ جس کو دوسرے مفسرین قرآن کی تفسیر نہیں سمجھتے۔ اس بنا پر قرآن کے حقیقی مطلب کا حصول ممکن نہیںہے۔

یقینا یہ شبہہ پیش کرنے والے چاہتے ہیں کہ مذکورہ نظریہ پیش کر کے ان لوگوں کو شک و شبہہ میں مبتلا کردیں جو کہ قوی فکر و نظر کے حامل نہیںہیںاور دینی معارف کا کافی مطالعہ، جواب دینے اور تجزیہ و تحقیق کی قدرت نہیں رکھتے۔ وہ لوگ غلط خیالات کی بنا پر یہ سوچتے ہیں کہ مسلمانوںکی فکری و اعتقادی بنیادیں اندھی تقلید کی بنیاد پر استوار ہیں کہ ان خیال آرائیوں سے وہ ویران و برباد ہو جائیں گی۔ چونکہ وہ لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ جس وقت فکر، عقل اور منطق کی بات آتی ہے تو صرف قرآن اوراس الٰہی کتاب کے معارف ہی کی تصدیق عقل سلیم اور صحیح منطق کرتی ہے، اور ہر حق پرست انسان صدق دل سے اس کو قبول کرتا ہے، لہٰذا کوشش کرتے ہیں کہ مذکورہ شبہہ اور زیادہ گہری صورت میں پیش کریں تاکہ اپنے خیال میں اورزیادہ کاری ضرب، دینی فکر پر لگائیں۔ وہ اس سے غافل ہیں کہ ذہین و زیرک مسلمان مفکرین ان کے نظریہ کا تجزیہ کرکے اس طرح کے نظریہ کے باطل نتائج و لوازم کو بھانپ لیں گے کہ جس کا انجام شکاکیت کے گڑھے میں گرنے کے علاوہ کچھ نہیںہے۔