11%

قرآن میں متشابہات کی حکمت

یہاں پر ممکن ہے یہ سوال کیا جائے کہ کیوں قرآن اس طرح نازل نہیںہوا ہے کہ اس کی تمام آیتیں واضح و محکم اور بغیر کسی ابہام و اجمال کے ہوں تاکہ سب کے لئے یکساں طور پر قابل فہم و استفادہ ہوں؟

اس سوال کے جواب کے لئے پہلے ایک مختصر سا مقدمہ بیان کرتے ہیں: ہم عام انسانوں کا ذہن فطری عوامل کا تابع ہے۔ عام انسان جب پیدا ہوتا ہے تو حواس کے ذریعہ پہلے محسوسات سے آشنا ہوتا ہے اور شروع میں اس کا ادراک و فہم محسوسات و مادیات کے حدود میں محدود ہوتا ہے، لیکن دھیرے دھیرے انسان کی فکری قوتیںبڑھتی ہیں اور وہ تجرید و تعقل کی قدرت پیدا کر لیتا ہے، نتیجہ میںاس کو مادیات سے مافوق مطالب کے درک کرنے کی صلاحیت حاصل ہو جاتی ہے۔

انسان کی عقل جس قدر تجرید و تعقل کی قدرت کی حامل ہوگی اور مادہ و مادیات کے حدود سے آگے بڑھے گی اتنا ہی وہ طبیعت سے ماوراء حقائق کو بہتر طور پر درک کرے گی اور چونکہ تمام انسان عقلی نشو و نما کے اعتبار سے مساوی نہیں ہیں لہٰذا غیر محسوس امور کے ادراک کے اعتبار سے بھی برابر نہیں ہیں۔

ایسے انسانوں کی کمی نہیں ہے کہ جن کی عمر کے دسیوں سال گزر جاتے ہیں، لیکن ان کی عقل و فہم سات، آٹھ سال کے بچوں کی سی ہوتی ہے او رایک عمر گزر جانے کے بعد بھی ممکن ہے کہ وہ خدا اور مجرد چیزوں کو زمان و مکان کی حدوں میں محدود تصور کریں، جبکہ دین کی بنیاد، غیب پر ایمان رکھنا ہے، یعنی مجرد اور غیر مادی حقائق پر ایمان رکھنا، جیسا کہ قرآن فرماتا ہے:

(ذٰلِکَ الکِتَابُ لارَیبَ فِیهِ هُدیً لِلمُتَّقِینَ الَّذِینَ یُؤمِنُونَ بِالغَیبِ)1

یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے یہ متقین کے لئے مجسم ہدایت ہے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس بنا پر ایمان کی بنیاد یہ ہے کہ انسان محسوسات سے مافوق حقائق پر ایمان لائے اور ان پر اعتقاد رکھے۔ لیکن ان حقائق کی کنہ و حقیقت کیا ہے؟ ایک ایسا مطلب ہے کہ جس کا سمجھنا الٰہی الہامات کے علاوہ ممکن نہیںہے جو کہ انبیاء اور ائمۂ معصومین (ع) کے دل پروارد ہوتے ہیں۔

(1) سورۂ بقرہ، آیت 2 ۔