پھر پیغمبر امیر المومنین سے پوچھتے ہیں کہ جس وقت تم ایسے فتنے سے دوچار ہوگے تو تم کہاں تک صبر کرو گے؟
حضرت نے فرمایا: یا رسول اللہ! یہاں صبر کی جگہ نہیں ہے، بلکہ یہ ان امور میں سے ہے کہ اس پر شکر کرتا ہوں اور اسے اپنے لئے بشارت و خوشخبری سمجھتا ہوں۔
اس وقت حضرت پیغمبر اکرم ان فتنوں کے گوشوں کی طرف اشارہ فرماتے ہیں جو کہ دین میں واقع ہوں گے اور لوگوں کو ان سے ہوشیار کرتے ہیں۔
حضرت پیغمبر اسلام حضرت علی ـ کو حضرت کی تمناپوری ہونے اور شہادت کی بشارت سے متعلق اطمینان دلانے کے بعد حضرت سے خطاب فرماتے ہیں اور ان فتنوں کی قسموں کو بیان فرماتے ہیں جو کہ دنیا پرست افراد کے ہاتھوں دین میں واقع ہوں گے۔
آنحضرت اپنے ارشاد میں فتنہ کی تین اہم قسموں کو بیان فرماتے ہیں:
''یَاعَلِیُّ! إنّ الْقَومَ سَیُفتَنُونَ بِاَموَالِهِم وَ یَمُنُّونَ بِدِینِهِم عَلٰی رَبِّهِم وَ یَتَمَنَّونَ رَحمَتَهُ وَ یَأمَنُونَ سَطوَتَهُ یَستَحِلُّونَ حَرَامَهُ بِالشُّبهَاتِ الْکَاذِبَةِ وَ الأَهوَائِ السَّاهِیَةِ، فَیَستَحِلُّونَ الْخَمرَ بِالنَّبِیذِ وَ السُّحتَ بِالهَدِیَّةِ وَ الرِّبَا بِالبَیعِ''1
اے علی! عنقریب لوگوں کو ان کے اموال کے ذریعہ آزمایا جائے گا اور وہ اپنے
دین کے ذریعہ اپنے رب پر احسان رکھیں گے اور اس کی رحمت کی تمنا کریں گے اور خود کو اس کے غلبہ سے محفوظ سمجھیں گے جھوٹے شبہات اور بیہودہ خواہشوں کے سبب حرام کو حلال قرار دیں گے اور شراب کو آبِ جو، رشوت کو تحفہ اور سود کو تجارت قرار دیکر حلال سمجھ لیں گے۔
(1) بحار الانوار، ج32، ص 241 ۔