33%

دو نکتوں کی یاد دہانی

ـ:قرآن کریم مسلمانوں اور اس آسمانی کتاب کے پیروؤں کے لئے ایک ا ہم تاریخی سند ہے چونکہ قرآن تاریخی واقعات بیان کرتا ہے، نیز گزشتہ قوموں اور ملتوں کے افکار و عقائد اور ان کے حالات اور ان کے طرز زندگی کو بیان کرتا ہے، (اس لئے) سب سے زیادہ معتبر تاریخی سند ہے اس کے مقابل ان تاریخی حالات اور کتابوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے جو کہ قرآنی سند نہیں رکھتیں، اگر چہ تواتر کے ساتھ نقل ہوئی ہوں، لہٰذا گزشتہ افراد کے حالات ، انبیاء اور گزشتہ قوموں کے واقعات کو قرآن سے سننا چاہئے اور ان سے نصیحت حاصل کرنی چاہئے۔

ہمارا فریضہ ہے کہ قرآن سے رجوع کر کے، پچھلی قوموں اور ملتوں کی داستان زندگی کا مطالعہ کر کے ان سے درس عبرت حاصل کریں، اپنی زندگی کو حق کی بنیاد اور صحیح روش پر سنواریں۔

ـ:قرآن کریم اس بات کے علاوہ کہ گزشتہ قوموں کی تاریخ ہمارے لئے نقل کرتا ہے اور ان حوادث کو بیان کر کے جو ان قوموں میں رونما ہوئے تھے ، ہم کو ان کی زندگی کے ماحول میں پہنچا دیتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ ہم ان سے درس عبرت لیں، وہ آئندہ کی بھی خبر دیتا ہے۔ واضح ہے کہ آئندہ اور مستقبل کے متعلق علمی اور یقینی بات کہنا خداوند متعال اور ان (معصوم) افراد کے علاوہ جو اس کے اذن سے آئندہ کی خبر رکھتے ہیں، کسی اور کا کام نہیں ہے ۔خدا کے لئے ماضی، حال، مستقبل کوئی معنی نہیں رکھتے اور وہ آئندہ کے متعلق خبر دے سکتا ہے، وہی ہے جو اپنے بندوں کے لئے راستے کو واضح و روشن کرسکتا ہے کہ کیسے چلیں تاکہ سعادت تک پہنچ جائیں۔ یہ قرآن کریم ہے جو کہ گزشتہ و آئندہ کی خبر دیتا ہے اور انسانوں کو ان کے ماضی و مستقبل سے آگاہ کرتا ہے، لہٰذا حضرت علی ـ ارشاد فرماتے ہیں:''أَلا إنّ فِیهِ عِلْمَ مَا یَأتِیْ وَ الْحَدِیثَ عَنِ الْمَاضِیْ'' آگاہ ہو جاؤ! کہ مستقبل اور ماضی کا علم قرآن کریم میں ہے۔