یہاں پر اجتماعی زندگی میں مقصد کے اثر کی طرف توجہ دلا دینا بھی ضروری ہے اس لئے کہ اجتماعی زندگی میں مقصد کی طرف توجہ دیئے بغیر، اجتماعی نظم کے متعلق کوئی بات نہیں کہی جاسکتی۔ مقصد ہی ہے جو کہ منطقی طور پر خاص رفتار و گفتار کا موجب و سبب بنتا ہے، انسان اپنی اس خاص رفتار و گفتار کے ذریعہ اجتماعی زندگی میں اس مقصد تک پہنچنا چاہتا ہے۔ مقصد خود، افراد معاشرہ کے نظریات اور مکتب فکر سے پیدا ہوتا ہے، اس طرح کہ ہر معاشرہ فطرت اوّلی کے اعتبار سے اپنے نظریات اور مکتب فکر کے تحت ایک خاص اجتماعی نظم کو پیدا کرتا ہے۔ لہٰذا سامراجی طاقتیں اپنی استکباری سیاستوں کے تحت کوشش کرتی ہیں کہ دوسری قوموں کو اپنے سامراجی مقاصد کی طرف کھینچ لائیں، ان کو ان کے اصلی مکتب فکر سے دور کردیں اور بیرونی مکتب فکر کو لاد کر ان قوموں کے نظم و تمدن اور مکتب فکر کو اپنے ہاتھ میں لے لیں۔
اس بنا پر یہ دیکھنا چاہئے کہ معاشرہ پر حاکم مکتب فکر کیا نظم پیدا کرتا ہے؟ یہ بات ہے کہ قرآن اور توحیدی مکتب فکر سے پیدا شدہ دینی مکتب فکر ایسے نظم اور ایسی سیاست کا سبب اور نافذ کرنے والا ہوتا ہے کہ جس سے دنیا و آخرت میں انسان کی خلقت کا مقصد حاصل ہو اور وہ سعادت و خوشبختی حاصل کرسکے۔ یعنی جو بات اصالتاً اسلام و قرآن کے پیش نظر ہے، وہ انسان کی سعادت اور اس کا تکامل ہے۔